anwar-ul-haq-2

امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے،نگراں وزیر اعظم

اسلام آباد (گلف آن لائن)نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ امن و امان اور سرحدی صورتِ حال کے باعث عام انتخابات التوا کا شکار نہیں ہوں گے،پاکستان کو مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ضرور ہے ،دفاع کے لیے جہاں ضروری سمجھا ایکشن لیں گے،

یقین ہے بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پائیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کرائیں گے،انتخابات سے متعلق قیاس آرائیوں کو ختم کرنا نگراں حکومت کا کام نہیں ،عمران خان کو سیاست سے باہر نہیں کیا جارہا، عمران خان پر عائد مقدمات میں عدالتی عمل شفاف ہوگا ۔

وائس آف امریکہ کو دئیے گئے خصوصی انٹرویو میں نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کو اگرچہ مغربی اور مشرقی محاذ پر خطرات کا سامنا ضرور ہے لیکن یقین ہے کہ بیک وقت سرحدی خطرات پر بھی قابو پائیں گے اور انتخابی عمل بھی بلا رکاوٹ مکمل کرائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر سیکیورٹی خطرات کے بڑھنے سے اس کے موثر جواب کے لیے ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں تاہم انتخابات کے انعقاد پر اس کے اثرات نہیں ہونے دیں گے۔

نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ انتخابی عمل الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے اور نگراں حکومت انتخابات میں التواءکےلئے کوئی جواز سامنے نہیں لائے گی،البتہ حکومت کا کام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہے جس کے لیے مکمل تیار ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان میں قومی اسمبلی کی تحلیل کو ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے اور سیاسی جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ انتخابات کے دن کا تعین کیا جائے۔

انوار الحق کاکڑ نے اس تاثر کی تردید کی کہ نگراں حکومت انتخابات کی تیاری کے عمل میں اقدامات نہیں لے رہی۔انتخابات میں التواءکے حوالے سے پائے جانے والے ابہام اور قیاس آرائیوں پر بات کرتے ہوئے نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ انتخابات سے متعلق قیاس آرائیوں کو ختم کرنا نگراں حکومت کا کام نہیں کیوں کہ انتخابات کا انعقاد آئینی طور پر الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

انہوںنے کہاکہ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو قانونی مقدمات کے ذریعے سیاست سے باہر کیا جا رہا ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ عمران خان پر عائد مقدمات میں عدالتی عمل شفاف ہوگا تاکہ ان کے چاہنے والوں اور مبصرین سب کو نظر آئے کہ یہ سیاست سے دور کرنے کا عمل نہیں بلکہ ملک کا قانون اپنی راہ لینا چاہتا ہے۔

نگران حکومت کے فوج کا سویلین چہرہ ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تاثر ماضی کی زیادہ تر حکومتوں کے متعلق دیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر 2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان کو سیلیکٹڈ کہا گیا اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت کے آنے پر بھی یہی الزام لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ نگراں حکومت آئینی عمل کے تسلسل کے نتیجے میں سابق وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے اتفاق رائے کے نتیجے میں آئی ہے۔

نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر سیکیورٹی کے خطرات کا سامنا ہے اور دوحہ امن معاہدے میں طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین کسی دوسرے کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو حق دفاع حاصل ہے اور اپنے لوگوں اور سرزمین کے دفاع کے لیے جہاں سمجھیں گے ضرور ایکشن لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ کون سے آپریشنل فیصلے پاکستان لے سکتا ہے یہ ضرور کہوں گا کہ جو خطرہ سامنے آئے گا اس کے مطابق فیصلے لیں گے اور عمل سے نظر آ جائے گا کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں