بیجنگ (نمائندہ خصوصی) حال ہی میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے ایک بار پھر چین پر بےبنیاد الزام لگایا ہے ۔ میونخ سکیورٹی کانفرنس کے دوران، رے نے روس-یوکرین تنازع پر غور کرنے والے مندوبین کو بتایا کہ چین تیزی سے “ہمارے اہم بنیادی ڈھانچے میں جارحانہ ہتھیار” تعینات کر رہا ہے جو وقت آنے پر کسی بھی لمحے لانچ کیے جا سکتے ہیں. ان کے مطابق، چین نے امریکہ کے اہم انفراسٹرکچر نیٹ ورک میں “غیر معمولی پیمانے” پر جارحانہ میلویئر نصب کیے ہیں۔اس سے قبل مسٹر رے نے رواں ماہ کے اوائل میں امریکی ایوان نمائندگان کی خصوصی کمیٹی برائے امریکہ چین اسٹریٹجک مسابقت کے سامنے چین پر الزام عائد کیا تھا کہ “چین ہیکنگ کی سرگرمیوں والا سب سے بڑا ملک ہے۔”
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مسٹر رے نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کس اہم بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور صرف اس بات پر زور دیا کہ ایف بی آئی میں اس پر بہت سا کام جاری ہے۔ جانا پہچانا انداز، جانا پہچانا لہجہ، بے بنیاد الزامات اور بیانات۔
میری یاد داشت میں امریکہ کی جانب سے چین کے خلاف اس طرح کے کئی الزامات ہیں۔ دور کی بات چھوڑیں، گزشتہ سال اسی وقت امریکی میڈیا نے “چینی غبارے “کے واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، یاد ہے نا؟ واقعے کے آغاز میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے چینی غبارے کے بارے میں ایک بیان جاری کرتے ہوئے اسے “امریکی سرزمین پر اسٹریٹجک ہدف کی جاسوسی کرنے کی کوشش کرنے والا ” قرار دیا تھا۔ یہ تماشہ آخر کار اس وقت ختم ہوا جب امریکی فوج نے چینی غبارے کی جاسوسی کی نوعیت کو خود مسترد کر دیا۔
دنیا کے سب سے بڑے جاسوسی نیٹ ورک اور سب سے زیادہ سائبر حملے کی ٹیکنالوجی کے حامل امریکہ نے طویل مدت تک پوری دنیا پر منظم اور ادارہ جاتی طریقے سے سائبر دراندازی کی ہے، جس پر مختلف ممالک نے تشویش اور غصے کا اظہار بھی کیاہے۔
2010 میں امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے سٹکس نیٹ وائرس کا استعمال کیا جو تاریخ میں کسی دوسرے ملک کے اہم انفراسٹرکچر پر حکومتی سائبر حملے کا پہلا واقعہ تھا۔ 2013 میں “پرزم گیٹ” واقعے نے دنیا کو حیران کر دیا تھا جس سے یہ انکشاف ہوا تھا کہ امریکہ نے چین سمیت دنیا بھر کے ممالک سے راز چوری کیے تھے اور جرمن چانسلر سمیت اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی خفیہ طور پر جاسوسی بھی کی تھی۔
اسی سال، میڈیا نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی (این آئی ایس ٹی) کی شائع شدہ کرپٹوگرافک معیارات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بیک ڈور وائرس کے استعمال کا انکشاف کیا ۔2015 میں امریکی حکومت کا ‘آرچ پلان’ بے نقاب ہوا تھا جس کا مقصد مختلف ممالک میں سائبر سیکیورٹی کمپنیوں کو ہیک کرنا ، انہیں دباؤ میں لانا اور انہیں امریکہ کے جبر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا تھا. 2017 میں دنیا کے سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے رینسم ویئر “وانا کرائی” کا آغاز امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے لیک کیے گئے سائبر ہتھیاروں سے ہوا تھا.
امریکہ کی نظر میں ایک “اسٹریٹجک حریف” کی حیثیت سے، چین پر امریکہ کی جانب سے سائبر دراندازی اور تخریب کاری کی سرگرمیاں واقعی “غیر معمولی حد” تک پہنچ گئی ہیں۔ چین کے سائبر ایمرجنسی رسپانس سینٹر کی جانب سے جاری کردہ سائبر سیکیورٹی رپورٹ کے مطابق چین میں پکڑے جانے والے بدنیتی پر مبنی پروگرامز کا 53.1 فیصد حصہ امریکہ سے تھا۔ حالیہ برسوں میں، امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے تحت مخصوص دراندازی آپریشنز کے دفتر (ٹی اے او) نے چین میں سائبر اہداف پر بدنیتی پر مبنی ہزاروں سائبر حملے کیے ہیں، جن میں چین میں مختلف صنعتوں، سرکاری اداروں، جامعات ، طبی اداروں، سائنسی تحقیق کے اداروں سمیت دیگر اداروں کو طویل عرصے تک نشانہ بنایا گیا ہے۔
بس ایک مثال لیجئے:
اپریل 2022 میں چین کی نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے انفارمیشن سسٹم کو سائبر حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ پیچیدہ تکنیکی تجزیے اور ٹریس ایبلٹی کے بعد چینی ٹیکنیکل ٹیم نے نارتھ ویسٹرن پولی ٹیکنیکل یونیورسٹی پر سائبر حملے کے عمل کو معلوم کر لیا اور چین کے انفارمیشن نیٹ ورک پر امریکی ٹی اے او کی جانب سے کیے گئے سائبر حملے اور ڈیٹا چوری کے متعلقہ شواہد حاصل کئے اور اسی سال ستمبر میں تحقیقاتی رپورٹ دنیا کے لیے جاری کی۔
رپورٹ میں چوری کی کارروائی کے سربراہ رابرٹ جوائس سمیت چین پر براہ راست سائبر حملے کرنے والے 13 افراد، این ایس اے کی جانب سے امریکی ٹیلی کام آپریٹرز کے ساتھ دستخط شدہ 60 سے زائد معاہدوں اور 170 سے زائد الیکٹرانک دستاویزات کا انکشاف کیا گیا ۔ کون، کب، کہاں، کیسے۔ چین کے ناقابل تردید شواہد کے سامنے امریکہ نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا ۔
این ایس اے کے تحت ٹی اے او کے علاوہ ، امریکی سائبر کمانڈ نے 2018 کے اوائل میں ہی ممکنہ مخالفین کے خلاف سائبر حملے شروع کرنے کو اپنی حکمت عملی کے نئے ورژن میں شامل کیا تھا۔ حقائق نے پوری طرح سے ظاہر کیا کہ امریکہ سائبر حملوں کا آغاز کرنے والا اور ماسٹر مائنڈہے ۔ آج چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی جنگ ہارنے کے بعد امریکہ اپنی عزت بچانے میں ناکام ہو گیا ہے تو دوسروں کو بدنام کرنے اور افواہیں پھیلانے کا اپنا پرانا کاروبار پھر سے شروع کر دیا ہے ۔
انٹرنیٹ انسانیت کا مشترکہ خاندان ہے اور اسے کچھ ممالک کے لئے بالادستی برقرار رکھنے کا آلہ نہیں بننا چاہئے۔ امریکہ کی جانب طرح طرح کی غلط سائبر پالیسیوں نے نہ صرف دنیا کے اہم انفراسٹرکچر اور لوگوں کی رازداری کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے، بلکہ خود امریکہ کو بھی ان پالیسیوں سے نقصان پہنچے گا۔