نجم الثاقب

بشریٰ بی بی و نجم الثاقب کی آڈیو لیکس: ڈی جی آئی بی کا عدالت کو تفصیلات چیمبر میں بتانے کا عندیہ

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم الثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ڈی جی آئی بی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو تفصیلات چیمبر میں بتانے کا عندیہ دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے سماعت کی۔عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا۔وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ہماری آڈیو جو لیک ہوئی وہ اوریجنل تھی۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ڈیجٹیل میڈیا بڑا سمندر ہے، فیس بک، یو ٹیوب ہماری ایجنسیز کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، مرحوم جج ارشد ملک کی آڈیو لیک ہوئی، پھر پاناما کیس کا فیصلہ سامنے ہے۔

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اسٹیٹ یہ پوزیشن لے رہی ہے کہ کوئی لیگل اتھارٹی نہیں، یہ ٹیلی کام کمپنی نے بتانا ہے کہ شہریوں کی پرائیویسی محفوظ ہے یا نہیں؟ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نے بتایا کہ پالیسی، ایکٹ، لائسنس کچھ اور کہتے ہیں۔

اس موقع پر ڈی جی آئی بی فواد اسد اللّٰہ عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس بابر ستار نے ان سے سوال کیا کہ ریاست شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہے؟ کیا ٹیلی کام آپریٹرز فون ٹیپنگ کی اجازت دے رہے ہیں؟

ڈی جی آئی بی فواد اسد اللّٰہ نے عدالت کو بتایا کہ ہم کسی پر ذمے داری فکس نہیں کر سکتے جب تک تحقیقات نہ ہوں، آڈیو ٹیپ کرنے کی کنفرمیشن یا تردید نہیں کر رہے، اسٹیٹ کے دشمنوں پر نظر رکھتے ہیں، اس سے متعلق عدالت کو چیمبرمیں تفصیل بتا سکتے ہیں۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ان لائسنسز میں قانون کی یہ شقیں کیوں رکھی جاتی ہیں یہ دیکھنا ہے۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم بھی یہی سمجھنا چاہتے ہیں۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ پی ٹی اے نے کسی کو ہدایات جاری نہیں کیں، سرکاری افسران آپ سے گھبرا جاتے ہیں، میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ کتنا عجیب جواب ہے کہ سیکشن 19 میں یہ مان رہے ہیں یہ جرم ہے، یہ پورا پورا دن ٹی وی چینلز پر چلاتے رہے ہیں۔جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ مستقبل میں اسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم سب کی پرائیویسی خطرے میں ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ میں کلائنٹ سے بات کر رہا ہوں اور اسے کوئی اور بھی سن رہا ہو۔جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا کوئی فریم ورک ہے؟ کس قانون کے تحت اسٹیٹ کو یہ سہولت دی ہوئی ہیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں