بیجنگ (نمائندہ خصوصی) چین کے صدر شی جن پھنگ نے بیجنگ میں امریکی کاروباری برادری اوراسٹریٹجک اکیڈمک سرکل کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ صدر شی نے نشاندہی کی کہ سان فرانسسکو سربراہ اجلاس میں سب سے بڑا اتفاق رائے یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات مستحکم اور بہتر ہونے چاہئیں جبکہ امریکہ کے نمائندے کا کہنا یہ تھا کہ “تھوسیڈائڈس ٹریپ” ناگزیر نہیں ہے۔
چین اور امریکہ کی کامیابی ایک دوسرے کے لئے ایک موقع ہے – ایک ایسی حقیقت جو حقائق اور اعداد و شمار سے بار بار ثابت ہوئی ہے۔ سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے چین اور امریکہ کے درمیان تجارت میں 200 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے؛ 70،000 سے زائد امریکی کمپنیوں نے چین میں سرمایہ کاری کی ہے، جس کا سالانہ منافع 50 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، جس سے چین کی معیشت کو بھی قوت ملی ہے۔ اس کے علاوہ چین-امریکہ تجارت نے امریکہ میں 2.6 ملین سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کئے ہیں. یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چین امریکہ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کا جوہر باہمی فائد ے پر مبنی ہے۔
“تھوسیڈائڈس ٹریپ” ناگزیر نہیں ہے، اس میں امریکی کاروباری اور اسٹریٹجک اکیڈمک سرکل کی توقعات شامل ہیں کہ وہ اپنے ممالک میں حکمران حلقوں کی طرف سے چین کے بارے میں درست تصور پیش کریں۔ چین اور امریکہ کے صدور کے درمیان سان فرانسسکو سمٹ کے بعد سے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم امریکہ کو چین کے بارے میں مسلسل غلط فہمی ہے اور چین پر دباؤ ڈالنے کے طریقوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر امریکی کاروباری برادری کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی ہے۔ “تھوسیڈائڈس ٹریپ” ناگزیر نہیں ہے ، اس کی ایک اور وجہ چینی اور امریکی عوام کے مابین تبادلے اور دوستی ہے۔ اس سال چین اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 45 ویں سالگرہ ہے۔
موجودہ صورتحال میں چین اور امریکہ کے مشترکہ مفادات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ “تھوسیڈائڈس ٹریپ” ناگزیر نہیں ہے، یہ امریکی کاروباری اور اسٹریٹجک اکیڈمک سرکل کا اتفاق رائے ہے، اور یہ امریکی حکمران حلقوں کا اتفاق رائے بھی بننا چاہئے. جیسا کہ صدر شی نے نشاندہی کی ہے کہ “چین اور امریکہ کے تعلقات ماضی کی طرف واپس نہیں جا سکتے، لیکن ان کا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔