اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پٹرولیم لیوی ٹیکس لگانے کا فیصلہ عالمی تیل کی کمپنیوں کے دیکھ کر کریں گے، نان فائلرز کی اختراع سمجھ نہیں آتی، نان فائلرز کی اختراع شاید ہی کسی اور ملک میں ہو گی، نان فائلز کے کاروبار اور لین دین پر ٹیکس کی شرح بڑھا رہے ہیں ، ہمیں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے، 10 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو نا قابل برداشت ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد پر لے کر جانا ہے ، ریٹیلر اور ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا مقصد بوجھ بانٹنا ہے، ٹیکس سلیب میں ردوبدل ممکن ہے، سب کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ، آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کو سہولیات فراہم کریں گے، نوجوانوں کو نوکریاں دینی ہیں اور روزگار ان کی ضرورت ہے ، تنخواہ پر 6 لاکھ روپے انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار رکھی ہے، تاجر خود کو رجسٹرڈ کروائیں، 31ہزار ریٹیلرز رجسٹرڈ ہوچکے ہیں ،
اس وقت 90کھرب روپے نقد زیر گردش ہیں، نقد کی ٹرانزکشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس 35 فیصد ہے ، گورنر سٹیٹ بینک کے ساتھ نئیبینک سکیمز لائیں گے، زرعی شعبے کی فنانسنگ بڑھائی جائے گی، پی ایس ڈی پی میں جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کہا کہ نان فائلرز کے لیے ٹیکس ریٹ میں اضافہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے، جی ڈی پی کا 10 فیصد ٹیکس برقرار نہیں رہ سکتا، اسے 2 سے 3 سالوں میں اسے 13 فیصد تک لے کر جانا ہے، دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو جی ڈی پی کے ساڑھے 9 ٹیکس پر بیرونی امداد کے بغیر مستحکم ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ غیر دستاویزی معیشت کو ختم کرنے کے لیے اس کی ڈیجٹائزیشن، یہ جو ابھی بات ہو رہی ہے کہ ایف بی آر کی کیا کارکردگی ہے، یہ بات درست ہے کہ جس طرح سے نفاذ اور عمل درآمد ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہے, ڈیجٹائزیشن کا مقصد انسانی عمل دخل کو کم سے کم کرنا ہے، اس سے کرپشن میں بھی کمی ہوگی اور کارکردگی میں بھی بہتری آئے گی۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پروگریسو ٹیکس سسٹم کے تحت زیادہ آمدنی والوں پر زیادہ ٹیکس عائد کے نفاذ میں میرا نہیں خیال کہ اس میں کسی کو کوئی مزائقہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے نافائلرز کے لیے کاروباری ٹرانزیکشن کے ٹیکس میں نمایاں اضافہ ہے، کیونکہ اس میں 3، 4 فیصد اضافہ ناکافی تھا، اس کو ہم کئی جگہوں پر 45 فیصد پر لے گئے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ نان فائلرز ضرور سوچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ نان فائلرز کی اختراع کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے، میرا نہیں خیال کہ کوئی اور ملک ایسا ہوگا جہاں نان فائلرز کی اختراع نکالی گئی ہو۔ پیٹرولیم لیوی سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ جو 60 سے 80 روپے کی تجویز ہے، ہم اسے پہلے دن ہی لگانے نہیں جا رہے، اس میں اگلے مالی سال کے دوران بتدریج اضافہ ہوگا، اس میں بھی ہم عالمی قیمتوں پر نظر رکھیں گے اور اس کی مطابقت سے اس کو آگے لے کر چلیں گے۔
سیلری سلیب سے متعلق سوال پر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ سیلری ٹیکس سے استثنی والی کیٹیگری کو برقرار رکھا گیا ہے، اسی طرح سے جو ٹاپ سلیب ہے، وہ بھی اسی طرح سے برقرار ہے، سیلری کلاس کے علاوہ پروفیشنلز کمیونٹی آتی ہے، اس کو تو ہم 45 فیصد پر لے گئے ہیں، سلیب میں رد و بدل ہے، مجموعی طور پر یہ نمبر بڑا نظر آتا ہے، انفرادی سطح پر دیکھیں تو اس میں اتنا بڑا بوجھ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ریٹیلرز کا تعلق ہے، سارے جو اس شعبے سے منسلک ہیں، تو ابھی آپ نے پوچھا کہ بس یہی کلاس رہ گئی ہے جو آپ کے پاس چھوڑی گئی ہے تو اس سوال کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اس سمت میں آگے نہیں بڑھیں گے تو کوئی بھی آجائے، اس کو یہی کرنا پڑے گا، اس لیے جو ہمارے ریٹیلرز، ہول سیلرز بھائی بہن ہیں ان کو نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ بوجھ بانٹا جائے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے یہ جو رجسٹریشن شروع کی وہ رضاکارانہ بنیاد پر کی اپریل میں، اور آپ سب لوگوں نے اسے سب سے بڑی ناکامی قرار دیا اور ٹھیک بھی کہا آپ لوگوں نے، ہم نے کہا تھا اپریل میں کہ اس کو خود رجسٹر کریں اور اب تو ایپ ہے اس کے ذریعے رجسٹریشن کرنی تھی تو صرف 75 لوگوں نے یہ کیا، یہ ہوتا ہے جب رضاکارانہ بنیاد پر کام ہو تو۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر مئی میں ہمیں اس کو اس طرف لے کر جانا تھا تو 6 شہروں میں ایف بی آر کی ورک فورس کام پر لگی اور 31ہزار کے قریب ریٹیلرز رجسٹر ہوچکے ہیں اور ہم اسے جاری رکھیں گے کیونکہ جولائی سے ٹیکس کا اطلاق ہونا شروع ہوجائے گا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ یہ جو ٹیکس ہے یہ 2022 میں لگ جانا چاہیے تھا، ہمیں ریٹیلرز، ہول سیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لے آنا چاہیے تھا، ہمارے پاس اب چارہ کوئی نہیں ہے سوائے اس کو کہ ہم یقینی بنائیں کہ ان شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔
غیر قانون کیش ٹرانزیکشن کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا یہ سب چیزیں ڈیجیٹلائزیشن اور غیر دستاویزی معیشت سے منسلک ہیں، اس وقت گردشی نقدی 90 کھرب ہے، تو اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ جتنی بھی پالیسی اقدامات ہیں اس کو وہاں لے کر جائیں اور جو سلسلہ ہم نے شروع کیا تھا پی او ایس جیسا تو ہم اس کو دوبارہ شروع کریں گے تاکہ کیش ٹرانزیکشن کو ختم کیا جائے اور اسے دستاویزی کیا جائے۔ بجٹ میں نوجوانوں کو نظر انداز کرنے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں سے متعلق پوچھے جانے پر وزیر خزانہ نے بتایا کہ پہلے ہم نوجوانوں کی بات کر لیتے ہیں، اس میں جو سب سے بڑا اپ سائید ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے پاس پوری دنیا میں تیسرے بڑے فری لانسرز موجود ہیں، ہمیں نوکریاں نہیں دینی بلکہ بچے اور بچیاں گھر بیٹھ کے پیسے کمارہے ہیں اور اس میں آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہم نے سب سے بڑی رقم مختص کی ہے اور اس کی وجہ ہے کہ یہ جو ان کا ایکو سستم ہے اس مین فندز بنیں گے اور ایدیشنل انفراسٹرکچر ہے اس کو بہتر کیا جائے گا، 3.5 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہے آئی ٹی ۔
جہاں تک ایس ایم ایہ کی بات ہے تو اس کی جیسی فنانسنگ ہونی چاہیے ویسی نہیں ہوئی، چھوٹے کاروباری اداروں کے حوالے سے بینکوں کو محنت کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایک کریانے کی دوکان ہے کو ایک یا 3 لاکھ روپے دینے ہین تو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا کاروبار جن بھی لوگوں کے ساتھ چل رہا ہے ان کو ری پیمنٹ ہورہی ہے یا نہیں، میں یقین دلاتا ہوں کہ گورنر اسٹیت بینک کے ساتھ مل کے پچھلے دو مہینے میں ہم نے پاکستان بینک ایسو سی ایشن کے ساتھ مل کے 3.4 میتنگز کی جن کی بنیاد پر بینکس 3 سیکٹر میں بینکس نے مخصوص اسکیم بنائی ہے کہ زراعت کی فنانسنگ کیسے بڑھانی ہے، آئی ٹی کی فنانسنگ کرنے ہیں اور ایس ایم ای کو کیسے فنانس کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں کچھ چیزیں وزارت خزانہ نے مختص کردی ہیں کیونکہ ان کو سبسدائزڈ لون چاہیے تو سبسڈی کی رقم اس بجٹ میں مختص کی گئی ہے، کیونکہ جہاں ریٹ ہے اور جن ریٹ پر ہم نے ان کو دینا ہے اس کی سبسڈی حکومت دے گی اور چونکہ یہ بینک تھوڑا گھبراتے ہیں تو فرسٹ لاس کی گارنٹی ہے وہ بھی ہم نے کہہ دیا ہے اسٹیٹ بینک کو کہ ہم اس کو آگے لے کر چلیں گے۔ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ ایگزم بینک میں ایکسپورٹ ری فنانس اسکیم شفٹ ہورہی ہے اسٹیٹ بینک سے تو اس میںا ب ٹھیک ٹھاک رقم ہے جو ری فنانس کی وہ ہم نے لازمی کردی ہے کہ وہ ایس ایم ای کو جائے۔ انہوں نے کہا کہ ترقاتی بجٹ اور گریب عوام کو ریلیف سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ڈی پی میں ہماری ترجیح تھی کہ جو منصوبے چل رہے ہیں ان کو مکمل کیا جائے، 81 فیسد رقم ان کو دی جارہی ہے جو مکمل ہونے والے ہیں، اگر یہ پروجیکٹس رکے رہیں گے تو جو اثر آنا تھا وہ نہیں آ پائے گا، اسی طرح نئے منصوبوں کو صرف 19 فیصد مختص کیا گیا ہے، کچھ تکینیکی چیزوں کو ہمیں آگے لے کر چلنا ہے۔ ایک سوال پر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ جس جس سے حکومت نکل جائے، وہ کسان اور زراعت کے لیے اتنا ہی بہتر ہے، چاول کا معاملہ دیکھیں، اس میں کیوں کچھ نہیں ہوگا، مارکیٹ بیس ڈیمانڈ سپلائی چل رہی ہے، بمپر فصل ہوگئی، برآمدات ہوگئی، نہ اس کی خبر آئی، نہ کسان نے کوئی شکایت کی۔