فواد چوہدری

فوج سے اکیلے بات کرنے کا فائدہ نہیں، گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہو گا، فواد چوہدری

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم نے فوج سے رابطے نہ رکھ کر غلطی کی، اگر رابطے رکھتے تو غلط فہمیاں اتنی نہ بڑھتیں لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنا سیاسی کردار محدود کرنا ہو گا، فوج سے اکیلے بات کرنے کا فائدہ نہیں بلکہ گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہو گا۔امریکی نشریاتی ادارے کودئیے گئے انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا کہ ہم جو کچھ ہیں تحریک انصاف کی وجہ سے ہیں، ہماری تو پہچان ہی پی ٹی آئی ہے، اسی جماعت میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف تو عمران خان ہے جن سے میری دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور مجھے پارٹی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے قد اتنے چھوٹے ہیں کہ ساری سیاست اس پر کھڑی ہے کہ کوئی بڑے قد والے لوگ شامل نہ ہو جائیں اور اس کی وجہ سے وہ بالکل چوہے نہ بن جائیں، یہ عمران خان کے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت کے مسئلے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت میرا تو کیا کسی کا بھی کردار نہیں چاہتی، اس وقت کو قیادت ہے اس کا کیا کردار یا قدر ہے؟، رﺅف حسن کا پی ٹی آئی میں کیا کردار ہے، انہیں ایک نوٹس ملا اور انہوں نے پی ٹی آئی کی پوری سوشل میڈیا ٹیم کے خاندانوں کو اٹھوا دیا، ان پر کوئی پرچہ نہیں ہوا، وہ ایک دن کے لیے جیل نہیں گئے۔فواد چوہدری نے کہا کہ شبلی فراز چھ مہینے گھر میں رہے اور ان کو کسی نے پوچھا ہی نہیں، وہ آئے اور سینیٹ کے لیڈر بن گئے ہیں، پی ٹی آئی میں جو باقی لوگ ہیں لوگوں کو ان کے نام بھی نہیں پتا، موجودہ لیڈرشپ کی تو کوئی قربانیاں بھی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سب جیلوں میں تھے، ہمیں الیکشن نہیں لڑنے نہیں دیے گئے، ہم پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، ہم سے زبردستی سیاست چھڑوانے کی کوشش کی گئی جس سے ایک خلا پیدا ہوا اور اس چھوٹی سی لیڈرشپ کو اختیار مل گیا، ورنہ ان کا تو کوئی قد نہیں ہے کہ یہ کوئی کردار ادا کر سکیں۔ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہا کہ میں جیل سے آیا تو مجھے پیغام ملا کہ عمران خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں جس پر میں نے جواب دیا کہ میرے ابھی ضمانتوں کے کیسز ہیں تو میں اگلے ہفتے آتا ہوں، اس دوران ایک گروپ نے عمران خان کے سامنے رونا پیٹنا ڈال دیا کہ اگر یہ آ گئے تو ہمارا کیا بنے گا جس پر مجھے جیل سے خان صاحب کا میسج آیا کہ ابھی ٹھہر جا کیونکہ یہ لوگ عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس لیڈرشپ میں سے اکثر لوگوں کو تو عمران خان جانتے بھی نہیں ہیں، شیر افضل مروت کو بھی عمران خان نہیں جانتے تھے اسی وجہ سے وہ اب سائیڈ لائن ہو گئے، رﺅف حسن کو تو خان صاحب کے گارڈز نے بنی گالا سے باہر پھینکا تھا، ان کا تو عمران خان سے کوئی تعلق نہیں نہ ہی ان کا ان سے کوئی تعلق ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے مجھے سپریم کورٹ سے گرفتار کیا اور مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال ہمارے گرفتار کرانے میں سہولت کار تھے، ہمارے پاس عدالت کا حکم بھی تھا، میں ضمانت کے لیے گئے تو رجسٹرار تالا لگا کر غائب ہو گیا، مجھے گرفتاری کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کرنٹ لگایا گیا، بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ میں، عمران اسمعیل، علی زیدی سمیت کوئی بھی استحکام پاکستان پارٹی میں جانے کو تیار نہیں تھے، ہمیں لینے صاحبان آ گئے، میں نے علیم خان اور جہانگیر ترین سے کہا کہ آپ آگ سے کھیل رہے ہیں، انہوں نے مجھے کہا کہ ہمیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ آپ 40 نشستیں جیت جائیں گے جس پر میں نے کہا کہ اگر انہوں نے 40 نشستیں آپ کو دینی ہیں تو آپ بتائیں کہ نواز شریف آ کر کیا کرے گا، ایسا کچھ نہیں ہونا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ عمران خان کو مشکل وقت میں چھوڑ کر چلے گئے تو انہوں کہا کہ مجھے خان صاحب نے فون کر کے پوچھا تم پر تشدد ہوا ہے جس پر میں نے کہا کہ جی ہوا ہے، اس کے بعد وہ کچھ نہیں بولے، بعد میں خان صاحب نے مجھے کہلوایا کہ تم پارٹی سے علیحدہ ہو جاﺅ، اتنا کون انسان برداشت کر سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹوئٹ بھی میں نے نہیں کی بلکہ ایک حاضر سروس صاحب نے کی، میں نے کہہ دیا کہ میں پریس کانفرنس کر سکتا اور نہ ہی عمران خان کے خلاف بات کر سکتا ہوں، ہم سیاست سے الگ ہو جاتے ہیں تو انہوں نے بعد میں الیکشن لڑنے ہی نہیں دیا۔فواد چوہدری نے کہا کہ فوج ہمارا اثاثہ ہے، ہم اس کے اثاثے نہیں ہیں، فضل الرحمن یا باقی لوگ کیا فوج کے خلاف تھے، ہماری ہر چیز پاکستان سے وابستہ ہے اور فوج اس فریم ورک کا اہم حصہ ہے لیکن فوج کو بھی اس فریم ورک کو سمجھنا ہو گا اور دوبارہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فوج سے رابطے نہ رکھ کر غلطی کی، اگر رابطے رکھتے تو غلط فہمیاں اتنی نہ بڑھتیں، کوئی تو تھا جو عمران خان کو بتا رہا تھا کہ آپ کو قتل کردیں گے اور فوجی قیادت کو بتایا جا رہا تھا کہ عمران خان آپ کو نہیں چھوڑے گا، جب وہ رابطہ نہیں ہوا اور ہم جیسے لوگ درمیان سے نکل گئے تو اس سے غلط فہمیاں بڑھ گئیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے فوج کی عمران خان سے لڑائی تھی تو پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ فوج کی اندرونی سیاست تھی جو ہمارے اوپر آ گئی، عمران خان فوج کی سیاست کو سمجھتے نہیں تھے اور رابطے نہ رکھنے سے غلط فہمیاں بڑھ گئیں ورنہ لڑائی کوئی نہیں تھی۔فواد چوہدری نے کہا کہ فوج سب سے پہلے عدت کیس پر عمران خان اور بشری بی بی سے معذرت کر کے اس سے دستبردار ہو۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب اسٹیبلشمنٹ واحد عنصر نہیں رہا، اب سیاسی جماعتیں ایک الگ عنصر ہیں، لوگ ایک الگ پہلو ہیں تو ایک گرینڈ ڈائیلاگ ہی ہو سکتا ہے، فوج سے اکیلے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ہم فوج سے لڑنا نہیں چاہتے ہیں، ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور فوج سے کوئی بھی نہیں لڑنا چاہتا لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنا سیاسی کردار محدود کرنا ہو گا، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں