لاہور(نمائندہ خصوصی)اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کی ایوان میں تقریر کے موقع پر اپوزیشن کے ناروا رویے کے بعد ایتھکس کمیٹی کے قیام کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ کوشش ہو گی کہ کمیٹی میں ایوان میں موجود تمام جماعتوں کو نمائندگی دی جائے،کسی بھی معاملے پر ایتھیکس کمیٹی بھرپور جائزہ لینے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کی سفارشات پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ،اپوزیشن اپنی نالائقی کو گالی کے پیچھے چھپانا چاہتی ہے ، جس طرح میرے اوپر قائد حزب اختلاف کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ہے بالکل اسی طرح قائد ایوان کے حقوق کا تحفظ بھی میرے فرائض منصبی میں شامل ہے ، لوگ اخلاقی سطح سے گر جائیں گے تو کس طرح ایوان چلے گا، ایوان کی تنزلی کے ذمہ دار اس کے اندر بیٹھے لوگ ہیں،یہ کوئی جلسہ یا کنٹینر نہیں ہے، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسمبلی میں ہلڑ بازی ہرگز برداشت نہیں اور نہ ہی ہودہ نعروں کی اجازت ہوگی، ایوان کا ماحول کسی صورت خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پنجاب اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ جمہوری روایات کی پاسداری ایک انتہائی لازمی امر ہے ، پہلے صرف ہلڑ بازی ،نعرے اورشو ر شرابے ہوتا تھا لیکن اب صورتحال ننگی ،غلیظ اور ماں باپ کی گالیوں تک پہنچ گئی ہیں، بطور اسپیکر جہاںمیری یہ ذمہ داری ہے کہ ایوان میں لوگوں کو بولنے کا حق دوں ، ایوان مسائل حل حل کروں ،حکومت اور اپوزیشن میں توازن رکھوں،فوری نوعیت کے مسائل پر حکومت کی توجہ دلائوں ،قانون سازی کے معاملات دیکھوں وہیں ایوان کے کنڈکٹ کو درست رکھنا بھی میری ذمہ داری ہے اوریہ میرے فرائض منصبی میں شامل ہے ، اگر میں ہائوس کے کنڈکٹ کو برقرار نہیں رکھ سکتا تو پھر یہ نظام کیسے چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل نعرے بازی کے معاملے پر میں نے فریقین کو ساتھ بٹھایا تھا اور یہ طے ہوا تھا کہ اب فیملیوں کے حوالے سے نعرے بازی نہیں ہو گی اور یہ ضابطہ اخلاق طے پا گیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جب آپ بالکل ہر اخلاقی سطح سے گر جائیں گے ،آپ کی بات کے اندر غلاظت ،بدبو گندگی ہو تو پھر رولز میں اسپیکر کو 210کے تحت اختیار دیا ہوا ہے کہ جب ایسی کوئی صورتحال بن جائے تو اسپیکر اپنے اختیار کو ایکسر سائز کرسکتا ہے اور میں نے اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے 11ممبران پر پابندی لگائی ہے ۔
اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ میں نے اسمبلی کی چار ماہ کی کارکردگی میں محسوس کیا کہ اسمبلی کی ورکنگ کمیٹیز سٹم کی ورکنگ کے بغیر عضو معطل کی طرح ہے ،میں نے قومی اسمبلی ، سینیٹ اور باقی صوبائی کے قوانین اٹھائے ان کے رولز آف پروسیجر دیکھے ،خطے میں بھارت اور بنگلہ دیش کے قوانین اور رولز آف پروسیجرز کا جائزہ لیا اور تمام قوانین کا ایک تقابلی جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ایک ایسی کمیٹی ریگولیٹ کرتے ہیں جس میں پنجاب اسمبلی میں کمیٹیز کو قومی اسمبلی کی طرز پر اختیارات دئیے گئے ۔
پہلے یہ تھا کہ پنجاب اسمبلی میں اراکین پنجابی زبان میں بات نہیں کر سکتے لیکن میں نے کہا کہ اراکین سرائیکی ،پوٹھوہاری میوہاتی جس زبان میں بات کرنا چاہیں بات کر سکتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ پہلی بار پنجاب میں ٹیکس فری بجٹ پیش کیا گیا ہے اور وزیر اعلیٰ کے سو روز کے انیشیٹو پر اگر عملدرآمد ہو جاتا ہے تو یہ گم چینچر ثابت ہوں گے ، وزیر اعلیٰ نے بطور قائد ایوان اپنی حکومت کی کارکردگی کو پیش کرنا تھا ۔میں پوچھتا ہوں اگر میں قائد حکومتی بنچوں کو قائدحزب اختلاف کی بات خاموشی سے سننے کا پابند کرتا ہوں تو پھر قائد ایوان کی بات کو سننا بھی اپوزیشن پر اسی طرح فرض ہے ۔
آپ ننگی غلیظ گالیوں ہلڑ بازی سے ایوان کی پروسیڈنگ کو یر غمال بنا لیںتو میں ایسا نہیں ہو سکتا ، ٹوکن احتجاج ہوتا ہے لیکن یہ کوئی جلسہ یا کنٹینر نہیں ہے یہ ایوان ہے اسے ذہن میں رکھیں، میں اسپیکر ہوں میرا کام ہے کہ میں ایوان کو مینٹین رکھوں ،میں نے آئین پاکستان کا حلف اٹھایا ہے ۔
میں نے چار ماہ ہر ممکن کوشش کی ہے کہ بات چیت ہو ، ماضی میں جو غلط روایات ڈالی گئی ہیں میری کوشش ہے کہ انہیں درست کروں ، حمزہ شہباز کو بطور قائد حزب اختلاف ساڑھے تین سال پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئر مین شپ نہیں دی گئی ، میں نے آتے ہی یہ حق قائد حزب اختلاف کے حوالے کیا ۔
مجھے اس وقت کے اسپیکر پرویز الٰہی نے خود کہا تھاکہ بانی پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ قائمہ کمیٹیاں نہیں بنانی۔اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ کام کرنے والے اس شور شرابے سے نہیں رکیں گے بلکہ اسمبلی کی کاروائی چلتی رہے گی ، ذہن میں اس بات کو لکھ کر رکھ لیں اسمبلی کی کارروائی جمہوری انداز میں چلتی رہے گی ۔ انہوں نے کہا کہ جس کتاب نے رکن اسمبلی کو استحقاق دیا ہے اسی کتاب نے اس کو توڑنے پر اس کا تدارک بھی کیا ہوا ہے ۔
اگر ایوان میں بات کرنا قائد حزب اختلاف کا حق ہے اور قائد ایوان کا حق نہیں تو ایسا نہیں ہو سکتا،فیصلے اقلیت نہیں اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور اکثریت کی لیڈر اکثریت کو بولنے کا حق نہ دیا جائے اور اقلیت گالی ،شور شرابے ،دشنام ،غنڈہ گردی اورہلڑی بازی کے ساتھ ایجنڈے کی کاپی کے پرزے کے انہیں پائوں تلے روند کر کے یہ سب کریں گے تو میں قائد ایوان کے حق کا تحفظ کروں گا جیسے میں قائد حزب اختلاف کا کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جب اپوزیشن کے اراکین میرے پاس آتے ہیں تو وہ بانی چیئرمین کی رہائی کی بات نہیں کرتے اس کو چھوڑ یں وہ کیا باتیں کرتے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ میرے ہاتھ سے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہو سکتی ، ایوان کی عزت اور تکریم ہے میں کسی گروہ کے ہاتھوں اسے یرغمال نہیں بننے دوں گا۔
انہوںنے قائد حزب اختلاف سے گاڑی واپس لینے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ میرا استحقاق نہیں ، ایس اینڈ جی اے ڈی انہیں ڈیل کرتا ہے ،میں کسی جائز چیز روک دوں گا ایسا نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داری یہ کہ وہ ایوان میں آکر بتائیںان کے کیا منصوبے ہیں ، اس پر اپوزیشن کڑی تعمیری تنقید کرے ،پوسٹمارٹم کر کے رکھ دیں لیکن یہ نالائقی کو گالی کے پیچھے چھپاتے ہیں ،پنجاب کی سیاسی تاریخ پہلا بجٹ ہے جو گلوٹین کے بغیر پاس ہوا ہے اس کا کس سے پوچھوں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے قائد ایوان کی تقریر کے دوران جو ہلڑ بازی اور غلیظ زبان کا استعمال کیا اس پر حکومتی اراکین شدید غصے اور اضطراب میں ہیں لیکن میری کوشش ہے کہ اس معاملے کو ٹھنڈا کیا جائے ۔