اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین بجٹ پاس کیا گیا ہے جس میں سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ، حکومت کو سب سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے تھی اور بجٹ پر نظر ثانی کی جائے ۔ان خیالات کا اظہار سابق وزیراعظم اور سینئر سیاستدان شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔شاہد خاقان عباسی نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہم کس قسم کی حکومت چلارہے ہیں، ہماری سوچ کیا ہے کہ ہم اپنے اخرجات کم نہیں کریں گے لیکن عوام پر مزید بوجھ ڈالتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سینکڑوں ارب کے سگریٹ بنتے ہیں جس کی چوری کھلم کھلا ہورہی ہے، کیا ایف بی آر نہیں جاتنا ملک میں کتنے سگریٹ استعمال ہورہے ہیں اور کتنے پر وہ ٹیکس اکھٹا کررہے ہیں، کیا ہم اتنے کمزور ہیں کہ سگریٹ بنانے والوں سے بھی ٹیکس اکھٹا نہیں کرسکتے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم 20 سے 22 فیصد چھوٹ پر قرضے لے کر عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں، جس ملک کا سود 6 سال میں 1500 ارب سے 10 ہزار ارب تک پہنچ جائے، آج پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ، یہ جو تمام حکومتیں 30 ہزار ارب ملکر خرچ کریں گی، اس میں ایک تہائی یعنی 10 ہزار ارب سود ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ملک کس طرح چلے گا، ماضی میں کچھ جگہ ہوا کرتی تھی، ہم غلط فیصلے کرتے تھے، یہ پیسے ایم این اے اور ایم پی ایز میں بانٹتے تھے، گزارہ ہوجاتا تھا، لیکن آج تو جگہ ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی عیاشیاں برداشت کرسکیں، آج تو ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ مہنگائی کی بات کریں تو جو ریٹیلر رجسٹرڈ ہیں، وہ مال کی خرید وفروخت پر آدھا فیصد اضافی ٹیکس اد اکریں گے، اور غیر رجسٹرڈ ریٹیلر ڈھائی فیصد ٹیکس دیں گے، جب کہ 30 لاکھ میں سے صرف ایک لاکھ رجسٹرڈ ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ پیسے بھی پاکستان کے عوام کی جیب سے نکلے گا، لیکن یہ جو ایل پی جی اور ڈیزل کی اسمگلنگ ہورہی ہے، اس کو کوئی نہیں چھیڑے گا جو سیکڑوں ارب کے سگریٹ فروخت ہورہے ہیں، اس کا کوئی نہیں پوچھے گا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018 میں آئینی ترمیم کے ذریعے جب فاٹا کا انضمام ہوا تھا، وہاں موجود انڈسٹریز کو 5 سال ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی جو اس سے پہلے موجود تھی تاکہ وہ اپنا بندوبست کرلیں، یہ فیکٹریاں بغیر سیلز ٹیکس اور بغیر ڈیوٹی کے فاٹا میں مال بناتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وہاں موجود انڈسٹریز فاٹا کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچاتی ہیں، وہاں طاقتور لوگ موجود ہیں، باہر سے لوگوں نے وہاں انڈسٹریز لگائی ہوئی ہیں، اور آج انہوں نے حکومت کو بلیک میل کرکے ایک بار پھر ٹیکس استثنی حاصل کرلیا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ اگر آپ فاٹا کے عوام سے ہمدردی کرنا چاہتے ہیں تو ان انڈسٹریز پر وہی ٹیکس لگائیں جو پاکستان کے باقی علاقوں میں ہیں، کیوں کہ فاٹا اب پاکستان کا حصہ ہے، اور وہاں سے ٹیکس کی مد میں جو بھی رقم ملے وہ فاٹا کے عوام پر خرچ کریں اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے ہونے چاہیے، وہاں سڑکیں، اسکول اور ہسپتال بناکر فاٹا کو دیگر علاقوں کے بربار لائیں۔انہوں نے کہا کہ آپ جو بھی زمین اور مکان فروخت کریں گے جس پر ڈھائی سے 4 فیصد تک ٹیکس عائد کردیا گیا ہے، اور اس میں حاضر سرور اور ریٹائرڈ ملٹری اور بیوروکریسی کے لوگوں کو چھوٹ دے دی، یہ ایسا راستہ کھولا گیا ہے جو ہر معاملے کو خراب کرے گا، میں شہدا کے لواحقین کے حق میں ہوں کہ انہیں یہ چھوٹ دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے 20 روپے فی لیٹر تیل پر رکھا ہے، اس پر مہربانی کرتے ہوئے 10 روپے کردیا گیا، اگر وہ 10 روپے برقرار رکھتے تو آج یہ سارے ٹیکس نہیں لگانے پڑتے، وزیر خزانہ اس عمل کی وضاحت کریں کہ کیوں صرف تنخواہ دار طبقے کو کیوں دبایا جارہا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس میں اتحادی پارٹیاں بھی حصہ دار ہیں، یہ اشرافیہ ہوتی ہے جو خود کو اور اپنے دوستوں کو بچاتی ہے، کیا ملک پر ٹیکس لگانے والوں پر خود ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، ابھی بھی وقت ہے بیٹھ کر معاملات پر نظر ثانی کی جائے۔اس موقع پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے کہا کہ آئی ایم ایف نے جن اقدامات کا کہا تھا وہاں چھوٹ دے دی گئی، آئی ایم ایف نے نہیں کہا تھا آپ اپنے اخراجات بڑھائیں، خرچے کم کرکے 3 ہزار ارب روپے لاسکتے تھے جو نہیں کیے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کا استحصال کرنے کا نہیں کہا، آئی ایم ایف نے کہا زرعی اورپراپرٹی ٹیکس لگائیں وہاں استثنی دیا گیا، آئی ایم ایف نے نہیں کہا تھا 500 ارب روپے کی ترقیاتی اسکیمیں منظورکریں۔ مفتاح اسماعیل نے 6 جولائی کو اسلام آباد میں اپنی جماعت کی لانچنگ کا اعلان کیا۔