بیجنگ (نمائندہ خصوصی) شنگھائی میں 2024 کی ورلڈ اے آئی کانفرنس اور مصنوعی ذہانت کی عالمی گورننس پر اعلی سطحی میٹنگ منعقد ہوئی ہے ۔ چینی میڈ یا کی رپورٹ کے مطا بق چین کے وزیر اعظم لی چھیانگ نے کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کیا۔
کانفرنس نے مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی پر شنگھائی اعلامیہ جاری کیا ، جس میں عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے میکانزم کے قیام اور ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانے کی وکالت کی گئی۔
اس سے مصنوعی ذہانت کی منظم ترقی اور اس کی عالمی حکمرانی میں ایک بڑے ملک کے طور پر چین کی ذمہ داری اور اہم قائدانہ کردار کا مظاہرہ کیا گیا۔چین اور دنیا میں جدید اے آئی ٹیکنالوجیز کی نمائش کے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر ، ورلڈ اے آئی کانفرنسز چھ مرتبہ کامیابی سے منعقد کی گئی ہیں۔ نمائش کا پیمانہ، نمائش کنندگان کی تعداد اور کانفرنس میں لانچ کی جانے والی نئی مصنوعات کی تعداد سب ایک ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں.
چین کی مشہور مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں اور ٹیسلا، مائیکروسافٹ اور شنائیڈر سمیت 500 سے زائد عالمی شہرت یافتہ ٹیکنالوجی کمپنیوں نے نمائش میں حصہ لیا، جس میں 1،500 سے زائد نئی آئٹمز کی نمائش کی گئی ۔ 6 جولائی تک ، آف لائن شرکاء کی تعداد 3 لاکھ سے تجاوز کر گئی جبکہ آن لائن ٹریفک 1.9 بلین سے تجاوز کر گئی ، جو پچھلے سیشن کے مقابلے میں 90 فیصد اضافہ ہے۔
کانفرنس میں 24 بڑے صنعتی منصوبوں پر دستخط کئے گئے ، جن پر سرمایہ کاری کا کل حجم 40 ارب یوآن سے زیادہ متوقع ہے۔ علاوہ ازیں، موجودہ کانفرنس میں 23 ممالک اور علاقوں سے وابستہ ایک ہزار سے زائد عالمی رہنماؤں نے بھی شرکت کی، جن میں 9 ٹورنگ ایوارڈ، فیلڈز میڈل اور نوبل انعام یافتہ افراد سمیت چینی اور غیرملکی 88 ٹاپ اکیڈمیشنز شامل تھے، جنھوں نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بین الاقوامی تبادلوں اور تعاون کو مشترکہ طور پر فروغ دینے پر زور دیا۔
مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی تمام انسانیت کی تقدیر سے وابستہ ہے اور تمام ممالک کو درپیش ایک مشترکہ چیلنج ہے۔ اس وقت مصنوعی ذہانت کی نئی ٹیکنالوجیز کی مسلسل پیش رفت، نئے کاروباری فارمیٹس کا مسلسل ابھرنا اور نئے اطلاق کی تیز رفتار توسیع سائنسی و تکنیکی انقلاب اور صنعتی تبدیلی کے نئے دور کے لیے ایک اہم محرک قوت بن چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے قانون، سلامتی، روزگار اور اخلاقیات کے حوالے سے بھی نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے ایک فعال پروموٹر اور پریکٹیشنر کی حیثیت سے ، چین نے ہمیشہ مصنوعی ذہانت کے انقلاب میں فعال طور پر حصہ لیا ہے ، نئے معیار کی پیداواری قوتوں کی ترقی کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا ہے ، اور مصنوعی ذہانت کی سیکیورٹی گورننس کو بہت اہمیت دی ہے۔
حالیہ برسوں میں چین نے یکے بعد دیگرے “مصنوعی ذہانت کے فوجی اطلاق کو ریگولیٹ کرنے پر چین کا پوزیشن پیپر” ،” مصنوعی ذہانت کی اخلاقی حکمرانی کو مضبوط بنانے پر چین کا پوزیشن پیپر ” اور” مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کا انیشی ایٹو” سمیت متعدد دستاویزات اور انیشی ایٹوز کا ایک سلسلہ جاری کیا ہے ، جن کو عالمی برادری نے خراج تحسین پیش کیا۔ سی جی ٹی این کی جانب سے دنیا بھر کے انٹرنیٹ صارفین کے لیے جاری کیے گئے تازہ ترین سروے کے مطابق 89.72 فیصد جواب دہندگان نے مصنوعی ذہانت کی عالمی تعمیر کو فروغ دینے میں چین کی کوششوں اور اصولی موقف کو سراہا۔
89.4فیصد جواب دہندگان نے مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور آواز کو بڑھانے اور مصنوعی ذہانت کی جامع ، فائدہ مند اور پائیدار ترقی حاصل کرنے کی چین کی تجویز سے بھرپور اتفاق کیا۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس میں چین کی جانب سے تجویز کردہ “مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی پر بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے” سے متعلق قرارداد متفقی طور پر منظور کی گئی، جس پر 140 سے زائد ممالک نے مشترکہ طور پر دستخط کیے۔
مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی پر بین الاقوامی تعاون سے متعلق اقوام متحدہ کی پہلی قرارداد کے طور پر، یہ قرارداد ” مصنوعی ذہانت انسانیت کی بھلائی کے لئے ” کے اصول پر قائم ہے، اور “مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے انیشی ایٹو” اور گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو کے مرکزی جوہر کی مکمل عکاسی کرتی ہے اور بین الاقوامی تعاون اور عملی اقدامات کے ذریعے صلاحیت سازی بڑھانے کے لئے ترقی پذیر ممالک کی موثر امداد کی وکالت کرتی ہے۔
یہ قرارداد اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی پرجوش توقعات کے عین مطابق ہے، اور اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے تصور کو نافذ کرنے کا ایک اور اہم اقدام ہے، جسے بین الاقوامی برادری، خاص طور پر گلوبل ساؤتھ کے ممالک کی طرف سے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ہے.
چین ” مصنوعی ذہانت انسانیت کی بھلائی کے لئے ” کے اصول پر عمل پیرا ہے، عالمگیر شراکت داری کے ساتھ ایک بین الاقوامی میکانزم کے قیام کو فروغ دیتا ہے اور وسیع اتفاق رائے کے ساتھ گورننس فریم ورک اور معیارات تشکیل دیتا ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی محفوظ، قابل اعتماد اور کنٹرولڈ ہے، اور یہ ہمیشہ انسانیت کے بنیادی مفادات اور اقدار کے مطابق ہونی چاہِئے.
چین مشاورت پر مبنی مشترکہ حکمرانی، فائدہ مند ترقی اور مصنوعی ذہانت کے فرق کو کم کرنے پر عمل پیرا ہے، اور مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لئے ایک کھلا، منصفانہ اور غیر امتیازی ماحول پیدا کرنے، صلاحیت سازی میں ترقی پذیر ممالک کو مدد دینے اور مشترکہ طور پر صنعتی اور سپلائی چین کے تحفظ اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے مل کر کام کرنے کی وکالت کرتا ہے۔ چین مصنوعی ذہانت کو بالادستی کے لئے آلے کے طور پر استعمال کرنے کی مخالفت کرتا ہے.
چین مشترکہ مشاورت، اشتراک اور مشترکہ فوائد کے اصول پر قائم ہے، مصنوعی ذہانت کے میدان میں وسائل کی اجارہ داری، قوائد پر غلبہ اور امتیازی ‘چھوٹے گروہ’ کے قیام کی مخالفت کرتا ہےاور اقوام متحدہ کے فریم ورک کے اندر مصنوعی ذہانت کے قوانین کی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی وکالت کرتا ہے۔
چین مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی برتری کے ذریعے غلط معلومات پھیلانے، دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے، ان کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنے اور ان کی تکنیکی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کی مخالفت کرتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی ترقی اور حکمرانی کے لئے بین الاقوامی برادری کو اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ایک ذمہ دار طاقت کے طور پر ، چین ہمیشہ مصنوعی ذہانت کے میدان میں انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر اور مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی میں ایک فعال پروموٹر اور اہم شراکت دار بننے کے لئے پرعزم رہا ہے” مصنوعی ذہانت انسانیت کی بھلائی کے لئے”مصنوعی ذہانت کی ترقی کی سمت میں چین کا تعمیری نظریہ ہے، جو بین الاقوامی برادری کی مشترکہ امنگوں کی عکاسی کرتا ہے اور مصنوعی ذہانت کے دور میں انسانیت کا فطری انتخاب بھی ہے۔