اسلام آ باد (نمائندہ خصوصی ) حکومت نے چیف جسٹس پاکستان کے خلاف قتل کے فتوے پر سخت ایکشن لینے کا اعلان کر تے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو سالوں سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے گی اور پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گی، پاکستان میں مذہب کے نام پر خون خرابے کی کوشش کی جارہی ہے،ریاست قتل کے فتوے برداشت نہیں کرے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف شرانگیز گفتگو کی گئی،چیف جسٹس کے قتل کے متعلق بات کرنا پاکستان کے آئین اور دین سے بغاوت ہے، اس طبقے کو 2017 میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا، قانون موجود ہے تو کسی فرد کو فتوی جاری کرنے کا حق نہیں، سزا و جزا کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہوتاہے ۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزرا احسن اقبال اور خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں وضاحت کر چکی ہے مگر جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے، ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر خدا نخواستہ ریاست نے یہ کھلی چھوٹ دی تو ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا، سوشل میڈیا میں عوام کو قتل پر اکسانے کی کوشش کی جارہی ہے اور انتہا پسندانہ پوسٹس سوشل میڈیا پر لگائی جارہی ہے، آپ ﷺ پر ہمارا ایمان ہے کہ وہ رحمت اللعالمین تھے اور وہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر دنیا میں تشریف لائے اور یہ رحمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا جب تک کائنات قائم ہے۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایک ایسے مذہب کے نام پر جو رحمت کا مذہب ہے اس پر ایسی گفتگو کی جائے تو اس سے زیادہ توہین مذہب کوئی نہیں، ریاست اس پر کارروائی کرے گی، کیونکہ یہ سب جھوٹ پر مبنی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز کو کئی سالوں سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے، سب کو پتا ہے کہ انہوں کیوں ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور یہ ایک نئی شرارت ہے عدلیہ میں ایک ایسی آواز کو خاموش کرنے کی جو حق اور سچ کی روایت کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ریاست اس بات کی اجازت نہیں دے گی اور قانون پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا، ہمیں اس بات کا اعادہ کرنے کی بار بار ضرورت نہیں، ختم نبوتﷺ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اگر اس کا بار بار اعادہ کرنا پڑا تو سمجھ لیں کہ معاشرے میں کوئی کمی ضرور ہے جو اس کی حیثیت کو بار بار اجاگر کرنا پڑ رہا ہے، ایمان کا اظہار اعمال سے ظاہر ہونا چاہیے، اس کا اظہار ایسا ہونا چاہیے کہ لوگ آپ کی تقلید کریں، اسلام محبت کا پیغام ہے، اسلام کا وہ چہرہ دکھائیں جو محبت اور پیار کا چہرہ ہے، ایسا چہرہ نئی نسل اور دنیا کو نا دکھائیں جو ہمارے دین کو کمزور کرتا ہو، جو ہمارے دین کے بنیادی تعلیمات کے منافی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست میں سسٹم ہوتا ہے، بے بنیاد الزام نہیں لگا سکتے، قانون میں یہ موجود ہے کہ اگر ایک الزام بے بنیاد لگایا ہے تو اس کی وہی سزا ہے جو اس الزام کے مرتکب فرد کو دی جاتی ہے، بغیر کسی ابہام کے جو سازش کئی سالوں سے چیف جسٹس کے خلاف چل رہی ہے اور عدلیہ آئینی معاملات پر فیصلے دے رہی ہے تو اس میں دھمکی دینے کی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا، ملک میں آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کسی گروہ کی مذہب، سیاست یا ذاتی مفادات کے نام پر ڈکٹیشن ریاست قبول نہیں کرے گی، ریاست قانون کے مطابق اس قسم کے غیر قانونی اقدامات، اس قسم کے فتوں کا جواب دے گی۔ بعد ازاں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی جو عدلیہ کے سربراہ ہیں اور اس ریاستی ستون کے سربراہ کے خلاف کسی کا برملا یہ اعلان کرنا کہ جو اس کا سر قلم کرے گا میں اسے ایک کروڑ کا انعام دوں گا یہ آئین سے اور دین سے کھلی بغاوت ہے، یہ وہ طبقہ ہے جنہیں 2017 اور 2018 میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا تھا، اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور کسی بھی مسلمان کی ایمان کی بنیاد عقیدہ ختم نبوت ہے، کسی مسلمان کو کسی جماعت سے اپنے عقیدہ ختم نبوت ﷺ کے لیے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، کسی کے ایمان کا فیصلہ انسانوں نے نہیں کرنا یہ وہ کام ہے جو خدا نے روز قیامت کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو شخص لوگوں کے ایمان پر فتوے جاری کرتا ہے وہ خدا کے اس کام کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، پاکستان میں آئین، عدالتیں، قانون ہیں، یہاں کسی کو، کسی گروہ کو اجازت نہیں کہ وہ کسی کے قتل کے فتوے جاری کرے کیونکہ سزا، جزا کا اختیار صرف عدالت کے پاس ہے، اگر جتھوں کو اور علما کو یہ اختیار دیا جائے گا تو ہر فرقے کا علیحدہ فتوی ہوگا، اور ملک آگ اور خون کے اندر نہلایا جائے گا۔ احسن اقبال نے کہا کہ اس لیے پاکستان کے علما نے مل کر پیغام پاکستان کی صورت میں اس رویے کی مذمت کی تھی، ان کا فتوی موجود ہے کہ دہشتگردی، خود کش حملے اور فتوے بازی کا اسلام سے تعلق نہیں، اس کا اختیار صرف ریاستی اداروں کے پاس ہے۔
انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ غزوہ حنین میں ایک صحابی تھے حضرت اسامہ بن زید، جب جنگ کے دوران وہ ایک مشرک پر غالب آگئے اور مشرک نے دیکھا کہ میں شاید قتل کردیا جاں تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن صحابی نے گمان کیا کہ اس نے اپنی موت دیکھ کر کلمہ پڑھا، یہ واقعی جب نبی ﷺ کے علم میں لایا گیا توانہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کیااور صحابی سے سوال کیا کہ اس کو کیوں قتل کیا جب اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا؟ صحابی نے جواب میں بتایا کہ اس شخص نے موت کو دیکھ کر کلمہ پڑھا تو اس پر نبی پاک ﷺ نے کہا کہ کیا اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے خوف سے کلمہ پڑھا؟ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اسلام ایک انسانی جان کی حرمت پر یقین رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کہا گیا ہے کہ ایک جان کو قتل کرنا ساری انسانیت کو قتل کرنا ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ یہاں گلی اور محلے میں لوگوں کو اکسایا گیا مذہب کا نام لے کر کہ وہ لوگوں کو فتوے دیں، سیالکوٹ میں سری لنکا کے شخص کو جیسے مارا گیا اس پر پوری قوم کو شرمندگی برداشت کرنے پڑی، اسی طرح جڑانوالہ، سوات اور کہاں کہاں ایک ہیجان پیدا کر کے صرف سیاست چمکانے کے لیے لوگوں کو کھڑا کیا جاتا ہے اور ان سے ایسی حرکات کروائی جاتی ہیں جو پورے پاکستان اور دین اسلام کے لیے شرمندگی کا با عث بنتی ہیں، پوری دنیا میں خبریں چھپتی ہیں اور دشمن مذاق اڑاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہمسایہ ملک کہ جہاں پر مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا ہے، وہ اسے بھول کر اس گروہ کی سرگرمیوں کو اٹھا کر پوری دنیا میں اچھالتا ہے، حکومت اس طرح کی رویوں کو پنپنے کی اجازت نہیں دے گی، کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے، کسی کے قتل کا فیصلہ کرے، کسی ملک کے چیف قاضی کے اوپر ایسے فتوے لگائیں جائیں تو نا صرف ہم اس کی مذمت کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائے گی تاکہ کوئی ایسا نا کرے،
میں بھی انہی لوگوں کا نشانہ بنا تھا، مجھ پر گولی چلائی گئی، ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت نبی پاک ﷺ کے نام اور حرمت کو ایک سیاسی مقصد کے لیے استعمال کر کے مسلم لیگ (ن)کے لیڈرز کو نشانہ بنایا گیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ ہم دین اسلام کے رحمت کے چہرے کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان آوازوں کی حوصلہ شکنی کریں جو اپنی سیاست کے لیےلوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور پاک نبی ﷺ کے نام کو استعمال کر کے لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں، آپ ﷺ کے نام سے عشق، آپ ﷺ کے نام کی حفاظت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور اس پر مسلمان کو کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں، اور نا کسی کو اجازت دی جائے گی کہ وہ خدا اور ان کے رسول ﷺ کا نام لے کر مسلمانوں میں انتشار پیدا کرے اور جتھے بازی کی سیاست کرے اور دین کی بدنامی کرے، ہم اس کی شدیدی مذمت کرتے ہیں، حکومت اس کی خلاف کارروائی کرے گی اور عوام سے اپیل ہے کہ ایسے لوگوں کے نعروں سے پرہیز کریں جو اپنی سیاست کے لیے دین کا نام لے کر لوگوں کو لڑواتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت غزہ کی طرف دیکھنا ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے مسلمانوں کے ساتھ، اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے۔ بعد ازاں خواجہ آصف نے کہا کہ ہر شخص مذہب کا نام لے کر اپنی سیاست چمکاتا ہے، اس قسم کی دھمکیوں سے زیادہ غیر اسلامی حرکت کوئی نہیں، قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، اس قسم کے ٹرینڈ کا مقابلہ ریاست کرے گی، سوشل میڈیا پر بھی قاضی فائز عیسی کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے، یہ ٹرینڈ ختم ہوگا، یہ میری آپ کی نہیں بلکہ ملک کی جنگ ہے، یہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہے۔ کسی مخصوص سیاسی جماعت کی نشاندہی کیے بغیر انہوں نے کہا کہ فیض آباد کے دھرنے کے بعد سے قاضی فائز کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، اس فیصلے کے بعد اس وقت کی حکومت نے قاضی صاحب کو ہدف بنایا، ریفرنس دائر کیا گیا جس پر بعد میں پچھتاوا کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کریں گے تو لوگ ہمارے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے کیا ہورہا ہے ہمارے ملک کے اندر۔ احسن اقبال نے کہا کہ ایسی چیزوں کو ملک میں پنپنے نہیں دیا جائے گا، یہ ملک میں فساد پھیلانے کیو کوشش ہے، جب فیض آباد ہوا تھا تو یہ بیان دیا تھا میں نے کہ یہ تحریک ختم نبوت نہیں بلکہ تحریک ختم حکومت ہے، یہ صرف سیاست کے لیے نبی پاک ﷺ کا نام استعمال کر رہے ہیں، سیاست معاشی مسئلوں پر کریں۔ وفاقی وزیر نے علما سے درخواست کی کہ ایسے لوگوں کے خلاف کھڑے ہوں اور قوم کی رہنمائی کریں، جب قانون موجود ہے تو کسی کے پاس فتوے جاری کرنے کا حق نہیں، علام اور قوم کا فرض ہے کہ ان آوازوں کو خاموش کروایا جائے، اگر پاکستان کے اندر کوئی اقلیت خود کو غیر محفوظ سمجھے تو یہ نظریہ پاکستان کی نفی ہوگی، ہمیں ہر شہری کو تحفظ دینا ہے۔
وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ اگر ہم ان چیزوں پر نوٹس نہیں لیں گے تو یہ پاکستان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردے گا، 2017-18 میں جو سازش ہوئی، ایک ہنستی بستی معیشت کو کریش کیا گیا، اس وقت پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی فیض آباد دھرنے کے ساتھی تھے، شاہ محمود قریشی تو دھرنے میں بیٹھے تھے اور انہوں نے ہمارے گھروں پر حملے کیے اور فتوے لگائے، اس سازش کی سزا آج بھی عوام بھگت رہی ہے، 28 جولائی 2017 کو وزیر اعظم کو نا اہل کر کے ملک کو بحران کی طرف دھکیلا گیا اور سی پیک کے منصوبے کو تباہ کیا گیا ہے، اب سی پیک 2 ہورہا ہے اور پھر انتشار کی آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں، ہمارا فرض ہے کہ ملک کے اندر امن، استحکام قائم رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ امن قائم کرنا ہماری ملکی سلامتی کا تقاضا ہے کیونکہ اگر اس کی وجہ سے ہماری معیشت بحران کی طرف گئی تو پھر شاید ہمیں کوئی بیل آٹ پیکیج نہیں دے گا، اس پر زیرو ٹالرنس ہوگی۔