اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) ارشد شریف اور دیگر صحافیوں کے خلاف متعدد مقدمات کے اندراج کے خلاف درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا اور کہا ہے کہ ارشد شریف کے خلاف ایک الزام میں درج متعدد ایف آئی آرز قانون کی نظر میں برقرار رکھنے کے قابل نہیں۔ ایک ہی الزام پر ملک بھر میں مقدمات درج ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ اس معاملے پر ملک بھر میں درج تمام کیسز کی مئی 2022 سے زیر التوا درخواستوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس محسن اختر کیانی نے 36 صفحات پر تحریر کیا ہے۔
فیصلے میں ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کو ارباب اختیار کی جانب سے غیر منصفانہ ہراسمنٹ کا سامنا تھا، ارشد شریف کے خلاف تحقیقات کے لیے صرف ایک ایف آئی آر کو درست سمجھا جانا چاہیے تھا، جب ریاستی اداروں کی جانب سے ایف آئی آر درج کرائی جائے تو ملزم کو حفاظت فراہم کی جانی چاہیے تھی، ملزم کو عدالت سے رجوع کرکے ضمانت حاصل کرنے کا حق فراہم کیا جانا چاہیے تھا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ارشد شریف کے خلاف درج متعدد ایف آئی آرز قانون کی نظر میں برقرار رکھنے کے قابل نہیں، ارشد شریف کے اہل خانہ نے بہت بڑا نقصان اٹھایا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں۔
عدالت نے کہا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے یکم دسمبر 2021 کو پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ کا نفاذ ہوا، آج بھی صحافیوں کو غیر منصفانہ ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ارشد شریف کے اہل خانہ پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے رجوع کرسکتے ہیں۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ارشد شریف کو پیش آنے والی ہراسمنٹ، زندگی کو لاحق خطرات کی تحقیقات کرے، صحافیوں کی جانب سے اپنے خلاف مقدمات کے حوالے سے درخواستوں کو نمٹایا جاتا ہے۔