اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئینی عدالت کے قیام کی منفی تشریح کی گئی۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ اسد قیصر میرے لیے بڑے محترم ہیں، اسپیکر کی کرسی پر بیٹھنا اس ایوان کا رکن ہونا سب سے بڑا اعزاز ہے، آئینی ترمیم میں کوئی نئی بات نہیں، یہ میثاقِ جمہوریت کا حصہ ہے، آئینی عدالت کے قیام کی تجویز کو فوری چیف جسٹس سے جوڑ دیا گیا، آئینی عدالت کے قیام کی منفی تشریح کی گئی۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے حکومتی حلقوں میں مشاورت ہوتی ہے، اس کو ایک ڈرافٹ بل کی شکل میں کابینہ کے ساتھ لایا جاتا ہے، کابینہ اس کی منظوری دیتی ہے۔
انہوںنے کہاکہ اس کے بعد کیبنٹ اسے پارلیمنٹ میں لے جانے دیتی ہے، ابھی یہ بل مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا، یہ سی سی ایل سی میں زیر بحث نہیں آیا، کچھ عرصے سے مشاورت جاری تھی، موجودہ انتخابات کے بعد جب حکومتی اتحاد تشکیل پارہا تھا جس میں تمام جماعتوں سے مشاورت کی گئی۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس کا بنیادی مقصد آئینی عدالت کا قیام تھا، 18 ویں آئینی ترمیم کرتے وقت رکاوٹیں ڈالیں گئی، وہ کون سی طاقت تھی جس نے کہا کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی اور وہ کون تھے جنہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم ختم کردی جائے گی اگر 19 ویں ترمیم آپ نے کی۔
انہوں نے کہا کہ میرے ذہن میں کوئی وہم نہیں کہ قانون ساز پارلیمان کا اختیار ہے وہ آئینی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے جو مناسب قانون سازی کرے وہ اس کا اختیار ہے، 25 کروڑ عوام نے پارلیمان کو یہ اختیار دیا ہے کہ انہوں نے سمت طے کرنی ہے۔انہوںنے کہاکہ چیف جسٹس نے چینی کا ریٹ نہیں مقرر کرنا، چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا، چیف جسٹس نے نہیں بتانا کہ کونسی سیاسی جماعت کو کس طرح چلنا ہے۔وزیر قانون نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں میں جو بلوچستان میں ہوا اور گزشتہ کچھ مہینوں میں جو خیبرپختونخوا میں حملوں میں شدت آئی ہے ہم اپنے ان بھائیوں کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کو قائم رکھنے کے لیے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بے تحاشا قربانیاں دی ہیں۔پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ اسد قیصر کی بہت عزت کرتا ہوں، انہوں نے ایسا تاثر دیا کہ ایک پارٹی کی جیت ہوئی ہے اور ایک کی شکست لیکن اگر جیت ہوئی ہے تو پوری پارلیمنٹ کی ہوئی ہے اور اگر شکست بھی پارلیمان کی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اچھی چیز بھی غلط طریقے سے کرنے جائیں تو اس کے نقصانات ہوتے ہیں، میں خود اٹھارہویں ترمیم سمیت دیگر اہم معاملات کا حصہ رہا ہوں اور یہ بھی وہ کام ہے جو سب کی مشاورت سے ہی ہوسکے گا، اس کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔
انہوںنے کہاکہ ڈرافٹ ابھی اس اسٹیج پر ہے جس میں مختلف تجاویز سامنے آئی ہیں، بطور سیاسی جماعت پیپلزپارٹی نے بہت سے تجاویز کو مختصر کرکے 3 یا 4 پر کہا کہ ہم اس سے زیادہ نہیں کرسکتے، ہمارا کام ہے اس ادارے کو مضبوط کرنا کیوں کہ یہ کمزور ہوگا تو ہم سب ہوں گے۔سید نوید قمر نے کہا کہ اگر تصور ٹھیک ہوگا تو ذاتی شخصیات کی بات نہ کریں کہ یہ جج آئے گا تو ہمارے فائدہ کا ہوگا یا یہ جج ہمیں نقصان دے گا، تمام ججز قابل احترام ہیں، اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے لیے بھی ہمارے دل اتنی ہی عزت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عمل ابھی چلے گا، بیٹھ کر تو دیکھیں کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں، بلاول بھٹو نے بھی مولانا فضل الرحمن سے بھی یہی بات کی تھی آپ دیکھ لیں کون سے بات سمجھ آتی ہے اور کون سی نہیں، مانتا ہوں سب کی اپنی سیاست ہوتی ہے اور بعض مواقع پر ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے لیکن ہم اس پر پوزیشن لیتے ہیں کیوں کہ وہ اس وقت ہمارے حق میں ہوتی ہے۔
انہوںنے کہاکہ ہم سب کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹناہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ کس چیز میں فائدہ ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو اگلے 5 سال سے 20 سال کے تناظر میں دیکھیں۔پی پی رہنما نے کہا کہ میڈیا میں جو ڈرافٹ گردش کررہا ہے، یہ وہ ڈرافٹ نہیں ہے اس میں بہت سے چیزوں ہر ہمیں بھی اعتراض ہے جب کہ ہم کوئی شب خون نہیں مارنا چاہتے تھے، ہمارا دل بھی وہی کرتا ہے جو آپ کا کرتا ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ قانون سازی ہو یا آئین میں ترمیم، اس کا ایک طریقہ کار ہے، یہ اجلاس جو بلایا گیا، پہلے دن سے اس کے مقاصد مختلف ذرائع سے بالکل واضح تھے کہ کوئی آئینی ترمیم لائی جارہی ہے، میڈیا میں بھی یہ ساری باتیں آگئی تھیں اس میں کون سی اصلاحات لائی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب یہ بھی طے ہوگیا کہ اتوار کو اس بل کو لایا جائے گا، جب ایک ایک کرکے سب کچھ باہر چلاگیا اور کم از کم ایک موقع ملا تھا، ایک اسپیشل کمیٹی بن گئی تھی، اس کمیٹی میں پہلے دن مجوزہ ڈرافٹ نہ بھی رکھتے تو کم سے کم ایک ورکنگ پیپر ضرور دے دیتے، چونکہ اپوزیشن پارٹی بھی اس میں شامل ہے تو ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
انہوںنے کہاکہ اگر ہم حلیف ہیں تو ہمارا بھی شکوہ ہے ہمیں بھی ہلکے میں لیا جاتا ہے اور عین وقت میں جب ہم توجہ دلاتے ہیں تو پھر اسحٰق ڈار اور اعظم نذیر تارڑ آتے ہیں اور میرے ساتھیوں سے بات کرتے ہیں، اگر اس طریقے کار کو ٹھیک نہیں کریں گے تو میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ جو اصلاحات کے اہم پوائنٹس ہیں اس پر شاید پی ٹی آئی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔