بیجنگ (نمائندہ خصوصی) فلپائن کے صدر فرڈینینڈ مارکوس نے نام نہاد “میری ٹائم ایریا ایکٹ” اور “جزائر اور سمندری راستےکے ایکٹ” پر دستخط کیے ، جن میں غیر قانونی طور پر چین کےجزیرہ ہوانگ یئن اور نانشا جزائر اور متعلقہ پانیوں کو فلپائن کی سمندری حدود میں شامل کیا گیا ۔ فلپائن کی جانب سے یہ اقدام اپنی داخلی قانون سازی کی شکل میں بحیرہ جنوبی چین کی ثالثی کے معاملے میں غیر قانونی فیصلے کو مضبوط بنانے کی ایک ناکام کوشش ہے، جو کامیاب نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے: یہ دو نام نہاد ایکٹس بین الاقوامی قوانین کے موجودہ نظام کو کمزور کرتے ہیں، غیر قانونی اور کالعدم ہیں۔
اول تو، فلپائن کا اقدام بحیرہ جنوبی چین کے ثالثی فیصلے کی اس نوعیت کو تبدیل نہیں کر سکتا جو سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کے منافی ہے۔ چین بحیرہ جنوبی چین کی ثالثی کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے فیصلے کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ فلپائن کے قوانین کا دعویٰ ہے کہ 200 ناٹیکل میل کے ای ای زونز میں مصنوعی تنصیبات اور متعلقہ “کم لہروں اور اونچائی کے ایریا” کا مالک ہے۔ یہ عملی طور پر اقوام متحدہ کے کنونشن کی تشریح اور اطلاق کے دائرہ کار سے ماورا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ نام نہاد جزائر اور سی ویز ایکٹ کئی لحاظ سے بین الاقوامی قانون کی دفعات اور بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن کی قراردادوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر بحیرہ جنوبی چین میں تنازعات سے سمندری راستوں کے گزرنے کے حق کو جوڑنا اور دوسرے ممالک کے بحری جہازوں اور طیاروں کے قانونی گزرنے کے حق کو محدود کرنا یو این سی ایل او ایس کی دفعات کی خلاف ورزی ہے اور سمندر اور جہاز رانی کی آزادی کو کمزور کرتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ فلپائن کی علاقائی حدود کا تعین بین الاقوامی معاہدوں کی ایک سیریز کے ذریعہ کیا گیا تھا ، جس میں 1898 ہسپانوی امریکی امن معاہدہ (پیرس کا معاہدہ) اور فلپائن کے بیرونی جزائر کے بارے میں امریکہ اور اسپین کے مابین 1900 کا معاہدہ (واشنگٹن معاہدہ)شامل تھا۔ان بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق چین کے جزیرہ ہوانگ یئن اور جزائر نان شا دونوں فلپائن کی علاقائی حدود میں نہیں آتے ہیں۔ فلپائن نے جو کچھ کیا ہے ،وہ خطے کےعوام کی مشترکہ امنگوں کے منافی ہے اور علاقائی امن و استحکام کے لئے بڑا نقصان دار بن گیا ہے۔ اگر فلپائن بحیرہ جنوبی چین میں اپنے نام نہاد قوانین کی روشنی میں مزید خلاف ورزی اور اشتعال انگیزی کرتا ہے تو چین اس کا بھرپور جواب دے گا۔