نیویارک(نمائندہ خصوصی)ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اکتوبر کے وسط سے یمن میں حوثی گروپ نے امریکی سفارتخانے اور اقوام متحدہ کے سابق ملازمین سمیت کم از کم 12 افراد کے مقدمات خصوصی مجرمانہ استغاثہ کے حوالے کیے ہیں۔ ان میں سے بعض پر ایسے الزامات عائد کیے گئے جن کی سزا موت ہے تاہم ان افراد کو ضروری حقوق پر مشتمل سہولیات سے محروم رکھا گیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ 31 مئی سے حوثی حکام نے اقوام متحدہ اور سول سوسائٹی کے درجنوں ملازمین کو من مانی طور پر حراست میں لے کر جبری طور پر غائب کر دیا ہے۔
باخبر ذرائع نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تنظیم نے حوثی جیلوں میں قیدیوں کے حالات کو کے حوالے سے بتایا کہ 10 جون سے حوثی حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ویڈیوز کا ایک سلسلہ شائع کیا اور پوسٹس تیار کی ہیں جن میں 10 یمنی مردوں کو دکھایا گیا ہے ۔ ان میں سے کچھ اب زیر تفتیش 12 افراد میں شامل ہیں۔ ان حراست میں لیے گئے افراد نے اقوام متحدہ اور اسرائیل کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا ہے۔ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ان سے تشدد کرکے اعترافات کرائے گئے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران تین ممتاز نظربندوں کیے گئے افراد کی موت ہو گئی ہے۔ اس نے ویڈیو شائع کرنے پر زور دیا جس میں بتایا گیا کہ اعترافات منصفانہ ٹرائل کے حق کو مجروح کرتے ہیں اور ان میں اعتبار کا فقدان ہے۔ہیومن رائٹس واچ میں یمن اور بحرین کی ایک محقق نیکو جعفرنیا کا خیال ہے کہ یمنی دارالحکومت صنعا پر قبضے کے بعد سے حوثیوں نے ہمیشہ مناسب طریقہ کار اور بنیادی تحفظات سے نفرت ظاہر کی ہے۔
حوثیوں کے زیر حراست قیدیوں کی موت سے عالمی برادری کو آگاہ کرنا چاہیے اور اس پر زور دینا چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں کہ حوثیوں کے ہاتھوں من مانی طور پر حراست میں لیے گئے سینکڑوں دیگر افراد بھی اسی طرح کے انجام کا شکار نہ ہوں۔تنظیم نے کہا کہ اس نے فوجداری مقدمات سے واقف اقوام متحدہ کے دو عہدیداروں سمیت تین افراد سے بات کی اور کہا کہ ان 12 افراد سے حوثیوں سے وابستہ سپیشلائزڈ کرمنل پراسیکیوشن کی طرف سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
یمن میں امریکی سفارت خانے کے سابق ملازمین اور اقوام متحدہ کے ملازمین کو 2021 اور 2023 کے درمیان حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں سے اکثر کو حراست میں رکھا گیا تھا، ان کمو اپنے اہل خانہ سے بات چیت کرنے سے بھی روکا گیا اور غائب کردیا گیا تھا۔ہیومن رائٹس واچ نے انکشاف کیا کہ مردوں کے مقدمات حوثی تفتیشی یونٹ سے پراسیکیوشن یونٹ میں منتقل کیے گئے تھے۔ تفتیش کسی وکیل کی موجودگی کے بغیر منتقلی کے طریقہ کار کے اندر ہوئی تھی۔ ان میں سے کچھ کو پوری مدت کے دوران وکلا سے بات چیت کرنے نہیں دی گئی۔
تنظیم نے کہا کہ 2023 کے موسم خزاں سے حوثیوں کی حراست میں مرنے والوں میں محمد خماش، صبری الحکیمی اور ہشام الحکیمی شامل ہیں۔ خماش اور صبری الحکیمی وزارت تعلیم میں اعلی عہدیدار تھ۔ ہشام الحکیمی سیو دی چلڈرن آرگنائزیشن کا ملازم تھا۔