اسرائیل

اسرائیل کی جنگ کا طریقہ کار نسل کشی پر مبنی ہے ، یو این کمیٹی

نیویارک(نمائندہ خصوصی)اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی نے غزہ میں اسرائیلی جنگ کے دوران جاری وسیع پیمانے پر شہری ہلاکتوں اور جانتے بوجھتے فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی حکمت عملی کو نسل کشی قرار دیا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق اس امر کا اظہار خصوصی کمیٹی نے غزہ جنگ کے بارے میں اپنی تازہ رپورٹ میں کیا ۔ یہ رپورٹ سات اکتوبر سے ماہ جولائی تک کے حالات اور نسل کشی کے حوالے سے ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق رپورٹ میں غزہ کے محاصرے اور انسانی بنیادوں پر بھیجے گئے دوسرے ملکوں کے امدادی سامان حتی کہ کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تک کے روکے جانے کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ امدادی کارکنوں کو ہدف بنا کر قتل کرنے کی اسرائیلی فوج کی حکمت عملی پر بھی رپورٹ میں بحث کی گئی ہے۔یو این کمیٹی کی رپورٹ میں اسرائیلی فوج سے بار بار کی جانے والی اقوام متحدہ کی ان اپیلوں کا بھی ذکر ہے جو انسانی بنیادوں پر امدادی سرگرمیاں کھولنے اور نسل کشی سے باز رہنے کے لیے کی گئی ہیں۔ تاکہ انسانی ساختہ قحط سے اہل غزہ کو بچایا جا سکے۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے بھی نسل کشی روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا کہا ہے، اس بارے میں بھی متوجہ کیا گیا ہے۔اس پس منظر میں ایو این کمیٹی کی رپورٹ نے اسرائیلی جنگ کو نسل کشی کرنے کی خصوصیات والی جنگ قرار دیا ہے۔ یہ کمیٹی اس سے پہلے بھی کئی دہائیوں کے دوران اسرائیلی کارروائیوں کے بارے میں تحقیقات کر چکی ہے جو مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسرائیل بھوک اور قحط کو فلسطینیوں کے خلاف جنگی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی مدد سے تیار کردہ جائزہ جو اسی ہفتے کے اواخر پر سامنے آیا ہے میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں قحط کا خطرہ سامنے ہے۔

خصوصا شمالی غزہ کے علاقے میں صورت حال سنگین ترین ہے۔جاری کی گئی یو این کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل شدید اور مسلسل بمباری کر کے تباہی کر رہا ہے اور یہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی بہت بڑی تباہی ہے جس نے صحت کے مسائل کو اور زیادہ بڑھا دیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس سال فروری تک یعنی اب سے نو ماہ پہلے اور جنگ کے ابتدائی پانچ مہینوں میں اسرائیل نے غزہ پر 25 ہزار ٹن بارود پھینکا ہے۔ یہ بارود دو جوہری بموں کے برابر ہے۔اقوام متحدہ کی کمیٹی کے مطابق اسرائیل پانی کی فراہمی اور نکاسی کے نظام کو تباہ کر چکا ہے، خوراک کی فراہمی کے نظام کو برباد کر چکا ہے، ماحول کو انتہائی آلودہ بنا چکا ہے اور کثیر جہتی بحران اور تباہی غزہ پر مسلط کیے ہوئے ہے جو فلسطینیوں کی اگلی کئی نسلوں کے لیے بھی نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہے۔

اس بارے میں کمیٹی کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے شہری انفراسٹرکچر تباہ کیا جا چکا ہے اور اب تک 43736 شہری ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ 103370 فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے لیے پورے غزہ میں کسی معقول علاج کی سہولت موجود نہیں ہے۔کمیٹی نے کہا ہے کہ یہ دوسرے ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینیوں کے بہائے جانے والے خون کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن وہ ریاستیں جو اسرائیل کو مسلسل اسلحہ و امداد دے رہی ہیں وہ اس کا احتساب نہیں کرنا چاہتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں