اسلام آباد (گلف آن لائن) پاکستان اور جرمنی نے دو طرفہ تجارت کے حجم اور باہمی دلچسپی کے کثیرجہتی شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ افغانستان کے حوالے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے، تبدیلی کے دور ان خون خرابہ نہیں ہوا جو خوش آئند ہے ،افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور جرمنی دونوں کے نقطہ نظر میں مماثلت ہے، ہم پرامن اور مستحکم افغانستان کے خواہاں ہیں،نازک موقع پر امن مخالف قوتوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی،
عالمی برادری افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے ،معاشی معاونت کو جاری رکھا جائے،افغانستان میں قیام امن کا فائدہ پورے خطے کو ہو گا،جرمن یورپی یونین میں پاکستان کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے ،سی پیک کے تحت بچنے والے اکنامک زون سے جرمنی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے ، رواں برس پاک جرمن سفارتی تعلقات کی سترہویں سالگرہ منا ئیں گے جبکہ جرمن وزیر خارجہ ہائیکوماس نے کہاہے کہ طالبان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کا آنے ولے دنوں میں علم ہو گا۔ منگل کو پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے، جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس وفد کے ہمراہ وزارتِ خارجہ پہنچے تو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے جرمن وزیر خارجہ کا خیر مقدم کیا،جرمن وزیر خارجہ نے وزارتِ خارجہ کے سبزہ زار میں یادگاری پودا لگایا۔ بعد ازاں پاکستان اور جرمنی کے درمیان وزارتِ خارجہ میں وفود کی سطح پر مذاکرات ہوئے ،پاکستانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی جبکہ جرمن وفد کی قیادت جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کی۔
دونوں وزرائے خارجہ کے مابین دو طرفہ تعلقات ،مختلف شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون کے فروغ اور افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا،ان مذاکرات میں، سیکرٹری خارجہ سہیل محمود ،اسپیشل سیکرٹری خارجہ رضا بشیر تارڑ، جرمنی میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر محمد فیصل اور وزارت خارجہ کے سینئر افسران نے شرکت ۔وزیر خارجہ نے جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اور ان کے وفد کو وزارتِ خارجہ آمد پر خوش آمدید کہا ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم کابل ایئرپورٹ پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ15 آگست کو افغانستان میں ایک اچانک تبدیلی دیکھنے میں آئی، افغانستان کے حوالے سے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ خوش آئند بات یہ ہے کہ افغانستان میں تبدیلی کے دوران خون خرابہ نہیں ہوا، اس دوران افغانستان، خانہ جنگی کا شکار نہیں ہوا۔ انہوںنے کہاکہ طالبان قیادت کی طرف سے جنگ کے خاتمے، انسانی حقوق کی پاسداری، افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے اور اجتماعیت کی حامل حکومت سازی کے حوالے سے بیانات، حوصلہ افزا ہیں۔
انہوںنے کہاکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور جرمنی دونوں کے نقطہ نظر میں مماثلت ہے، ہم پرامن اور مستحکم افغانستان کے خواہاں ہیں، ہمیں اس نازک موقع پر امن مخالف قوتوں (اسپائیلرز) پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ انہںنے کہاکہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے اور ان کی معاشی معاونت کو جاری رکھا جائے۔مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کا فائدہ پورے خطے کو ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کیلئے عالمی برادری کا تعاون ناگزیر ہے، عالمی برادری کو افغانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم، مختلف ممالک کے سفارتی عملے، بین الاقوامی اداروں کے اہلکاروں اور میڈیا کے نمائندوں کو کابل سے انخلاء میں معاونت فراہم کر رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے جرمن ہم منصب کو افغانستان کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے کیلئے، کیے گئے حالیہ چار ملکی دورے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم افغانستان کی صورتحال کے پیش نظر چیلنجز سے نمٹنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل اپنانے کیلئے کوشاں ہیں، ہم افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں، پاکستان، جرمنی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ پاکستان اور جرمنی کے درمیان کامیاب دو طرفہ سفارتی تعلقات کے ستر سال مکمل ہو رہے ہیں، دونوں ممالک کے مابین اعلیٰ سطحی روابط کا تسلسل ، دو طرفہ تعلقات کے استحکام کا مظہر ہیں۔دونوں وزرائے خارجہ کا دو طرفہ تجارت کے حجم اور باہمی دلچسپی کے کثیرالجہتی شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ۔دونوں وزرائے خارجہ نے خطے کی صورتحال کے حوالے سے دو طرفہ مشاورت جاری رکھنے کا عندیہ دیا ۔بعد ازاں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہاکہ جرمن وزیر خارجہ ہائکو ماس کو دفتر خارجہ میں خوش آمدید کہتا ہوں،موجودہ ملاقات تیسری ملاقات ہے،ہر ملاقات مین باہمی انڈر اسٹینڈنگ اور اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ رواں برس پاک جرمن سفارتی تعلقات کی سترہویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جی یس پی پلس میں حمایت پر جرمنی کا شکریہ ادا کرتے ہیں،بہت سے ایسے شعبے ہی جن مین پاک جرمن تعاون میں اضافہ ہو سکتا ہے ،ان شعبوں میں متبادل توانائی، بجلی سے چلنے ولی گاڑیاں شمل ہیں،مسلح افواج کے سربراہ نے بھی رواں برس جرمنی کا دورہ کیا،جرمنی کی جانب سے سفری ہدایت نامہ پر نظر ثانی کو سراہا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ جرمن ہم منصب سے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا،ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنی آنکھوں سے تمام صورتحال کا جائزہ لیں،ٹیلی گرام پر ملنے والی معلومات اور ہوتی ہے اور اپنا مشاہدہ اورہوتا ہے ۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ جرمن یورپی یونین میں پاکستان کا بڑا تجارتی پارٹنر ہے ۔
انہوںنے کہاکہ سی پیک کے تحت بچنے والے اکنامک زون سے جرمنی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے ،ویزہ پالیسی میں نرمی سے پاکستانی طلباء ، بزنس مین اور فیملیز کو فائدہ ہوگا ۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان کے لئے ٹریول سٹیٹس پر جرمنی کے شکرگزار ہیں۔جرمن وزیرخارجہ ہائیکو ماس نے کہاکہ یہ تھوڑے ہی عرصہ میں تیسری ملاقات ہے،پاک جرمن تعلقات کی سترہویں سالگرہ اور افغانستان کی صورتحال پر ہم یہاں موجود ہیں،ہم نے انخلاء کے حوالے سے گذشتہ دنوں میں بہت سی عالمی کوششیں دیکھی ہیں،پاکستان نے اس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا ہے جس کیلئے ہم شکرگزار ہیں۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ہونے کے ناطے اثرات دیکھ رہا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم نے افغانستان کے حوالے سے 500 ملین کا وعدہ کیا ہے،گذشتہ ہفتے سے اب تک ہم پاکستان سے جرمن شہریوں کے انخلاء پر رابطہ میں ہیں،ہمیں علم ہے کہ اس وقت بھی افغانستان میں جرمن شہری موجود ہیں،ہم ان کے انخلاء کیلئے پاکستان سے رابطہ جاری رکھیں گے۔ انہوںنے کہاکہ طالبان کی جانب سے کیے گئے وعدوں کا آنے ولے دنوں میں علم ہو گا،چند روز میں طالبان اپنے حکومت کا اعلان کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ تمام افغان طالبان کی حکومت کی حمایت نہیں کرتے،کافی افغان ہمسایہ ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ہم 30 لاکھ افغان مہاجرین کی صدیوں سے میزبانی کر رہے ہیں،ان کو رہائش، گزربسر کے کاروبار، تعلیم اور صحت کی سہولیات دی ہیں،ابھی مسئلہ پیسے کا نہیں بلکہ گنجائش اور صلاحیت کا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم ہر ممکن طریقہ سے افغانستان میں چیزوں کو معمول پر رکھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اشرف غنی حکومت افغانستان میں سب اچھا ہے کہ تصویر پیش کر رہی تھی،حقیقت ہے کہ وہ غلط بیانی اور جھوٹ بول رہے تھے،یہی وجہ ہے کہ وہ فوری طور پر سنَبھل نہ سکے اور گر گئے۔
انہوںنے کہاکہ تین لاکھ تربیت یافتہ افغان جنگجو کہاں گئے،جب طالبان کابل میں داخل ہوئے تو انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا،طالبان قیادت کے حالیہ بیانات مثبت اور حوصلہ افزاء ہیں ،جلد طالبان اپنی خواہشات کا اعلان کر دیں گے۔ انہوںنے کہاکہ عالمی برادری زمینی حقائق کا اندازہ لگا کر مستقبل کے راستے کا انتخاب کرے۔ انہوںنے کہاکہ طالبان پر اعتماد ان کے اپنے بیانات کے حقیقی نفاذ سے ظاہر ہو گا،انہیں انسانی حقوق، عالمی اقدار کا احترام کرنا ہو گا