تہران (گلف آن لائن)ایران میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آزاد تفتیش کار نے کہاہے کہ ایران نے 2020 میں چار بچوں سمیت 250 سے زائد افراد کو سزائے موت دی جبکہ رواں سال اب تک 230 سزائے موت دی جاچکی ہیں جن میں نو خواتین اور ایک بچہ شامل ہے جسے خفیہ طور پر سزا دی گئی۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق جاوید رحمن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی انسانی حقوق کمیٹی کو بتایا کہ ایران، سزائے موت پر خطرناک شرح سے عملدرآمد جاری رکھے ہوئے ہے اور سرکاری اعداد و شمار کی عدم موجودگی اور سزائے موت کے بارے میں شفافیت کی کمی کا مطلب ہے کہ یہ عمل جانچ پڑتال سے بچ جاتا ہے۔جاوید رحمن، لندن کی برونل یونیورسٹی میں انسانی حقوق اور اسلامی قانون کے پاکستانی نژاد پروفیسر ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران، گزشتہ سال مشرق وسطی میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک تھا جہاں خطے میں 493 سزاں میں سے نصف سے زائد سزائے موت دی گئیں اور اس کے بعد مصر، عراق اور سعودی عرب کا نمبر رہا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار میں چین کو شامل نہیں کیا گیا جہاں کے حوالے سے مانا جانا ہے کہ ریاستی سطح پر خفیہ طریقے سے ہزاروں افراد کو سزائے موت دی گئی اور شام جیسے تنازعات میں گھرے چند ممالک کو نظر انداز کردیا گیا۔جاوید رحمن کا کہنا تھا کہ ان کی تازہ ترین رپورٹ قومی سلامتی کے مبہم الزامات سمیت ان بنیادوں پر سنگین خدشات کو اجاگر کرتی ہے جو ایران سزائے موت کے نفاذ کے لیے استعمال کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں عدالتی عمل میں بھی گہرے نقائص ہیں، جہاں انتہائی بنیادی تحفظ بھی موجود نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ عناصر اور عدالتوں کی جانب سے تشدد اور دیگر منصفانہ ٹرائل کی خلاف ورزیوں کے تحت جبری اعترافات پر انحصار کے باعث میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں سزائے موت کا نفاذ زندگی سے من مانی محرومی ہے۔