اسلام آباد (گلف آن لائن) پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے 11 اکاؤنٹس کو غیر قانونی قرار دے کرلاتعلقی کا اظہار کیا ہے،الیکشن کمیشن نوٹس لے ،جن گیارہ لوگوں کے غیر قانونی اکاؤنٹس ہیں وہ فوری استعفیٰ دیں، غیر ملکی فنڈنگ کیس ایک میگا فنڈنگ اسکینڈل ہے، 8 سال کے بعد سچائی سامنے آرہی ہے، 31 مارچ کو اگلی پیشی ہے، الیکشن کمیشن روزانہ کی بنیاد پر کیس سنے۔
جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اکبر ایس بابر نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف نے فارن فنڈنگ کیس میں اپنے ہی 11 بینک اکائونٹس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا،سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرائے جانے والے اپنے تحریری جواب میں لکھا ہے کہ ان اکائونٹس کو بغیر اجازت غیرقانونی طور پر کھولا اور چلاگیا،ان 11 اکاوئنٹس کو غیرقانونی طور پر چلانے والوں میں موجودہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، گورنر سندھ عمران اسماعیل، خیبرپختونخوا کے گورنر شاہ فرمان، پنجاب حکومت کے سینئر وزیر میاں محمودالرشید، سندھ سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی انجینئر نجیب ہارون، رکن سندھ اسمبلی ثمرعلی خان، سابق ایم پی اے سیما ضیائ، خیبرپختونخواہ سے پارٹی رہنما ظفراللہ خٹک، سابق صدر پی ٹی آئی سندھ جہانگیر رحمن، سابق جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی کے پی کے خالد مسعود، وزیراعظم عمران خان کے مرحوم دو قریبی ترین ساتھی نعیم الحق اور احسن رشید شامل ہیں۔
انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے اپنے جواب میں لکھا کہ ”یہ افرادمجاز نہیں تھے کہ پی ٹی آئی کے نام پر اکائونٹس کھولتے، انہیں چلاتے اور ان میں چندہ وصول کرتے۔” دلچسپ امریہ ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی میں اپنی جمع کرائی جانے والی دستاویزات میں پی ٹی آئی نے ان تمام 11 اکائونٹس کو اپنے اکائونٹس کے طور پرتسلیم کیا تھا۔انہوںنے کہاکہ ایک طرف پی ٹی آئی اپنے ہی 11 اکائونٹس سے لاتعلقی کا اظہار کررہی ہے لیکن دوسری جانب پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اپنے جواب کے صفحہ نمبر 112 پر یہ اعتراف کیا ہے کہ 23.22 ملین (2 کروڑ32 لاکھ20 ہزار) روپے پی ٹی آئی کے مرکزی اکائونٹ سے ان11 اکائونٹس میں منتقل کئے گئے،پی ٹی آئی نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ 57 ملین (پانچ کروڑ70 لاکھ) روپے کی رقم مقامی ذرائع سے ان 11 اکائونٹس میں جمع کی گئی۔
انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی دعوی کررہی ہے کہ ان اکائونٹس میں جمع کی گئی رقوم کا پی ٹی آئی کے پاس کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے۔پریس کانفرنس کے دوران اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے پی ٹی آئی کے تحریری جواب کے صفحات 112، 113، 118، 120، 132، 144، 157، 159، 169، 178، 197 اور199 میڈیا کو دئیے جن میںپی ٹی آئی نے غیرقانونی اکائونٹس کھولنے اور انہیں چلانے والے اپنی پارٹی کے سینئر ترین عہدیداروں کے نام دئیے ہیں۔انہوں بتایا کہ چار سال گزرنے کے بعد 4جنوری 2022 کو سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ فریقین کو فراہم کی گئی تھی اور الیکشن کمیشن نے فریقین کو حکم دیا تھا کہ تحریری طور پر اپنے جوابات جمع کرائیں۔ انہوںنے کہاکہ اڑھائی ماہ کی لیت ولعل کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا تحریری جواب 15 مارچ 2022 کو جمع کرایا، پی ٹی آئی نے زبانی استدعا کی تھی کہ ان کاتحریری جواب خفیہ رکھا جائے اور پٹیشنر اکبر ایس بابر کو فراہم نہ کیا جائے لیکن الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی یہ استدعا مسترد کردی تھی۔
اکبر ایس بابر نے کہاکہ یہ امرتوجہ کے قابل ہے کہ اس دوران پی ٹی آئی نے دو مزید درخواستیں الیکشن کمیشن میں جمع کرائیں جن میں استدعا کی گئی تھی کہ اکبر ایس بابر کو اس مقدمے سے الگ کیا جائے اور کوئی دستاویزات ان کو نہ دی جائیں، یہ دو درخواستیں بھی الیکشن کمشن نے مسترد کردی تھیں اور اپنے حکم میں لکھا کہ پی ٹی آئی کی یہ تازہ ترین درخواستیں اس عمل کا تسلسل ہیں جس کے ذریعے پی ٹی آئی نے یہ مقدمہ منطقی انجام تک پہنچنے سے روکا۔اکبر ایس بابر نے کہاکہ پی ٹی آئی نے ایک آئینی ادارے کے سامنے اپنی سینئر لیڈرشپ پر باضابطہ فرد جرم عائد کردی ہے جس کے بعد ان ملوث افراد کا آئینی عہدوں پر رہنا بلاجواز ہے۔
انہوں نے کہاکہ اب جبکہ پی ٹی آئی نے تسلیم کرلیا ہے کہ اہم ترین آئینی عہدوں پر فائز اس کی سینئر قیادت ایک غیرقانونی عمل کا حصہ ہے۔ اس لئے میری الیکشن کمیشن سے استدعا ہے کہ اس بات کا نوٹس لے اور ان تمام عہدیداروں سے جواب طلبی کرے۔اکبر ایس بابر نے کہا کہ میں پہلے دن سے یہ کہہ رہا تھا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا فنڈنگ گھپلا ہے جس میں تحریک انصاف کے چئیرمین سمیت تمام سینئر قیادت ملوث ہے۔اکبرایس بابر نے مطالبہ کیا کہ عمران خان استعفیٰ دیں کیونکہ فارن فنڈنگ کیس میں ناقابل تردید شواہد سامنے آچکے ہیں جن کا اب خود پی ٹی آئی بھی اعتراف کرچکی ہے۔