اسلام آباد (گلف آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ای او بی ائی کرپشن کیس میں توہین عدالت کرنے والے ملزمان کی تفصیلات اور نیب سے ملزمان کی فہرست اور ٹرائل کی تفصیلات طلب کرلیں۔
ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کیس میں عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر چیئرمین ای او بی آئی و دیگر کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا عدالت کو دی گئی رپورٹ میں ملزمان کی مکمل فہرست شامل نہیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ نیب ریفرنس کی کیا صورتحال ہے،تقرریاں تو 2009 سے شروع ہوئی تھیں۔وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ خورشید شاہ 2011 میں وزیر بنے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 2010 کا کیس زیر التواء ہے، اگر توہین عدالت ہوئی ہے تو ذمہ داری ڈالنی ہے،سب کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے صرف ذمہ داروں کے خلاف ہی کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ عدالت نے کہاکہ نیب تفصیلی طور پر رپورٹ دے کس ملزم کا کیا کردار ہے، ایسا حکم دیں گے کہ ٹرائل بھی نہ رکے اور توہین عدالت کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی چلے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ نے جنوری 2011 میں ای او بی آئی میں بھرتیاں روکنے کا حکم دیا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ستمبر 2011 سے مئی 2012 کے درمیان ای او بی آئی میں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد جن افراد نے بھرتیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ان کا نام نیب رپورٹ میں موجود ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سید خورشید شاہ کا نام بھی ای او بی آئی میں غیر قانونی بھرتیوں پر اثر انداز ہونے والے افراد میں نیب رپورٹ میں شامل ہے۔وکیل اعتزاز احسن نے کہاکہ خورشید شاہ اس وقت وزیر نہیں تھے جب یہ بھرتیاں ہوئیں، نیب کیس میں توہین عدالت کیسے ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم صرف نیب سے ذمہ داران کی رپورٹ طلب کر رہے ہیں۔ وکیل اعتزاز احسن نے کہاکہ خورشید شاہ کا اس سے تعلق نہیں، ان کے سر پر توہین عدالت کی تلوار کیوں لٹک رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے ایک ماہ انتظار کر لیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ نیب کو تفصیلات جمع کرانے کا آخری موقع دے رہے ہیں،یہ کیس اس دور کا ہے جب ایکٹوزم اپنے عروج پر تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اب وہ دور نہیں رہا، ہر فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا۔کیس کی سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دی گئی۔