اسلام آباد(گلف آن لائن)وفاقی وزیرداخلہ راناثنااللہ نے کہا ہے کہ پاکـافغان سرحد سے فوج کی واپسی اور فاٹا کا انضمام ختم کرنے کی شرط پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات ممکن نہیں ہے ،یہ مطالبات آئین کے خلاف ہیں،اے پی ایس واقعہ سے منسلک ناموں کو معافی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے،ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، عمران خان کو کوئی خطرہ نہیں،اسحق ڈار کو ملک میں واپس آنا چاہیے۔
ایک انٹرویومیں وزیرداخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو لوگ ہتھیار ڈالنے کے خواہاں ہیں ان کے ساتھ مذاکرات ممکن ہیں۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے جنگجووں کی تعداد 4 ہزار سے 5 ہزار ارکان پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) واقعے سے منسلک ناموں کو معافی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ دیکھا جائے گا کہ دوسری جانب سے کس طرح کے لوگ مذاکرات میں حصہ لیتے ہیں، اگر افغانستان کی سیاسی حکومت کے نمائندے موجود ہوتے ہیں تو پھر ہماری طرف سے بھی سیاست دان مذاکرات میں حصہ لیں گے۔
وزیرداخلہ نے کہا کہ یقین نہیں تھا کہ مذاکرات کے نتائج ہفتوں میں سامنے آئیں گے اور اس میں چند ماہ لگیں گے۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، دوسری صورت میں ہم لڑائی سے گریز نہیں کریں گے۔انہوںنے کہاکہ عسکری قیادت نے یقین دلایا ہے کہ ہمارے پاس ایسے مسائل کا مؤثر حل نکالنے کی صلاحیت اور قوت ہے۔انہوں نے کہا کہ نہ فوج واپس بلانے پر بات ہوگی، نہ آئین پاکستان سے ہٹ کر بات ہوگی، نہ فاٹا کے انضمام کو واپس قبائلی علاقے کی حیثیت دینے پر بات ہوگی کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے، اس کیلئے کوئی بات نہیں ہوگی۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں بیرونی ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، ٹی ٹی پی کے پیچھے چند طاقتیں ہیں جو ملک میں امن نہیں چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز سلامتی پر دی گئی بریفنگ جامع تھی، جس میں تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا تھا لیکن کوئی ‘اقدامات تجویز’ نہیں کیے گئے۔وزیرداخلہ نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی اور قانون سازوں سے سفارشات طلب کی گئی ہیں اور مختلف کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیراعظم شہباز شریف سے لے کر آصف علی زرداری، جعمیت علمائے اسلام سمیت عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) تک سب کا کمیٹی میں اتفاق رائے تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہونے چاہئیں ۔وزیرداخلہ نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو کوئی سیکیورٹی خطرہ ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بابراعوان نے عمران خان کی زندگی کو خطرات کے حوالے سے ‘جھوٹے’ خدشات ظاہر کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے اس کا جائزہ لیا تو ان دعووں پر کوئی سچائی نہیں تھی۔انہوںنے کہاکہ پی ٹی آئی کے دوسرے رہنما فیاض الحسن چوہان نے دعویٰ کیا تھا کہ عمران خان کو افغانستان سے خطرات ہیں اور اگر ایسا ہے تو پارٹی کو اس معاملے پر ہوا کھڑا کرنے کے بجائے متعلقہ اداروں کو خدشات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی انتخاب کیلئے اپنی پارٹی کی مہم چلاتے ہیں تو انہیں ‘مکمل سیکیورٹی’ دی جائے گی۔وزیرداخلہ نے کہا کہ عمران خان کو ان کے انتہاپسندانہ خیالات اور کشیدگی پھیلانے پر گرفتار کردینا چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ اب کسی کو بھی دارالحکومت کا امن خراب کرنے کیلئے اسلام آباد میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پاک فوج کے اگلے سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے ایک سوال پر وزیرداخلہ نے کہا کہ اس حوالے سے فیصلہ اکتوبر میں کیا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ یہ روایت ہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کی تعینات ریٹائرمنٹ سے ایک مہینے پہلے کی جاتی ہے ‘لیکن یہ بھی روایت ہے کہ موجودہ آرمی چیف کی مدت کے خاتمے کے قریب ہی اعلان کیا جاتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد کے حوالے سے سوال پر رانا ثنااللہ نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو بتایا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنما اسحق ڈار کو ملک میں واپس آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے بھی وطن واپس آنے کی درخواست کی ہے۔