سی پیک میں

سی پیک میں مواقع اور چیلنجز دونوں شامل ہیں، پا کستا نی ما ہر ین

اسلام آباد (گلف آن لائن) چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا فلیگ شپ منصوبہ ، چین ۔ پاکستان کے درمیان ہر قسم کے حالات میں اسٹریٹجک تعاون کی شراکت داری کا عکاس رہا ہے۔

یہ بات معروف چینی اسکالر پروفیسر ڈاکٹر وانگ ای وے نے ایک بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مکالمے میں کہی جس کا موضوع تھا۔ “گزشتہ دہائی میں چین پاکستان تعلقات کی ترقی میں بی آر آئی کا کردار”۔ مکالمے میں سی پیک کے تحقیقی منصوبوں پر کام کرنے والے صحافیوں، اسکالرز، ماہرین اور ماہرین تعلیم کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

اہم مقرر جین مونیٹ چیئر پروفیسر، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے ڈائریکٹراور چین کی رین من یونیورسٹی میں سینٹر فاریورپین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر وانگ ای وے نے کہا کہ سی پیک “چار ستونوں” توانائی، بنیادی ڈھانچہ، بندرگاہیں اور ترقیاتی زون پر قائم ہے۔ڈاکٹر وانگ نے اپنے خطاب میں راہداری کے 5 بڑے فوائد گنوائے، ان کا کہنا تھا کہ چین پاکستان تعاون زیادہ سے زیادہ ممالک کو چین سے سیکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔

صنعتی منتقلی ایشیا کے عروج کی تیسری لہر کو متحرک کرتی ہے۔ یوریشیا اور بحر ہند کو جوڑنا بی آرآئی کا مقصد ہے،۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار ترقی راہداری کو کامیاب بنانے کی کنجی ہے جس کے لئے تعمیر کے مختلف پہلوئوں کو ہم آہنگ کرنا چاہیئے۔ سرگودھا یونیورسٹی میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف چائنہ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمن نے مکالمے کے دوران کہا کہ سی پیک منصوبہ ایک تاریخی اقدام ہے جس سے ملک میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے، روزگار اور مقامی افراد کو کاروباری مواقع ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط معیشت بننے کے قریب ہے جس کے لئے پاکستان نے سی پیک کی مدد سے علاقائی رابطے بہتر بناتے ہوئے اپنی بنیادوں کو مستحکم کیا ہے۔

کامسیٹس یونیورسٹی کے چائنہ اسٹڈی سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر طاہرممتاز نے کہا کہ پاکستان میں کئی اقدامات سی پیک کا حصہ ہے۔ بحیرہ عرب جانے کے لئے آخری زمینی پڑائو ہونے کے سبب گوادر قدرتی گہرے پانیوں کی بندرگاہ اور جغرافیائی اہمیت کے سبب اسے ہمیشہ سونے کی کان سمجھا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک نہ صرف پاکستان کے لیے بے پناہ معاشی مواقع لائے گا بلکہ چین کو ایشیا یورپ اور باہر کی منڈیوں سے منسلک کریگا۔

اسلام آباد انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ ریزولوشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر صبا اسلم نے کہا کہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ سی پیک کا تصور کئی برس پرانا ہے تاہم یہ بڑا منصوبہ اب ایک زمینی حقیقت بن چکا ہے۔ اب تک یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے لیے دیرپا اور مثبت نتائج کا باعث رہا ہے ۔ اس کے پہلے مرحلے میں 19 ارب ڈالر مالیت کے منصوبے تھے جو تقریبا مکمل ہوچکے ہیں اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

کمیونیکیشن اسٹریٹجسٹ انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز ریما شوکت نے کہا کہ بی آر آئی ایشیا کو وسط ایشیائی ریاستوں ، مشرق بعید، مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ سے جوڑنے کا ایک بہت بڑا اقدام ہے۔ بیلٹ کا تعلق زمینی راستوں سے ہے جبکہ روڈ سمندری راستوں بارے ہے پاکستان خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس اس کا اہم ترین منصوبہ ہے سی پیک کی شکل میں موجود ہے سی پیک میں مواقع اور چیلنجز دونوں شامل ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو کے تحت سی پیک کے دو جزو ہیں ایک سمندری اور دوسرا زمینی۔ میں صرف اس حقیقت پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گی کہ سی پیک سمندری جزو کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ زمینی جزو تو پہلے ہی موجود ہے۔ جسے سنوارنے یا اس میں توسیع کی جارہی ہے۔ ریما نے کہا کہ گوادر بندرگاہ اور سمندری راستے کو منصوبہ کا حصہ بنانے سے درحقیقت اس منصوبے کو چین پاکستان دونوں کے لئے معاشی طور پر قابل عمل بنادیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں