تہران(گلف آن لائن)اسرائیل اور لبنان کے درمیان سمندری سرحد کی حد بندی پر دو سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دونوں فریقوں نے منگل کو اعلان کیا ہے دونوں ملکوں میں کہ ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔حزب اللہ ملیشیا نے حد بندی کے معاہدے کے لیے اس کوتسلیم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حسن نصر اللہ نے کہا کہ جب تک معاہدہ لبنان کے مطالبات کو پورا کرتا ہے تب تک اسرائیل کے ساتھ راضی ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کے لیے لبنانی فیلڈز سے تیل اور گیس نکالنا اہم ہے۔ نصراللہ کا خیال تھا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سرحدی حد بندی کے معاہدے کے بارے میں اس وقت تک بات نہیں کر سکتے جب تک اس پر دستخط نہیں ہو جاتے۔
بائیڈن انتظامیہ نے لبنان اور اسرائیل کے درمیان برسوں سے جاری سمندری سرحدی تنازع کوطے کرنے کے معاہدے کو سراہا ہے۔وائٹ ہائوس کے ایک سینیر عہدہ دار نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آج فی الواقع امریکا کی مہینوں کی ثالثی کے بعد اسرائیلی حکومت اور لبنانی حکومت نے باضابطہ طور پراپنے سمندری سرحدی تنازع کو ختم کرنے اور دونوں ملکوں کے درمیان مستقل سمندری سرحد قائم کرنے پراتفاق کیا ہے۔اس عہدہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس (معاہدے) کی اہمیت یہ ہے کہ دونوں فریقوں کووہ چیزمل جائے جو ان کے لیے واقعی انتہائی اہم ہے۔اس عہدہ دار نے مزید کہا: “یہ معاہدہ متعدد وجوہات کی بنا پرتاریخی ہے۔ ایک یہ کہ یہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان باضابطہ معاہدے کے ذریعے سرحد کی پہلی حد بندی ہے۔
یہ اسرائیل کو تحفظ مہیا کرتا ہے، لبنان کو معاشی مواقع اورامید فراہم کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لبنان کے پانیوں میں جلد ہی رِگیں ہوں گی اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہوگی۔ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ قبل ایسا لگتا تھا کہ یہ معاہدہ ایک بارپھر تعطل کا شکار ہوجائے گا لیکن امریکی صدر کے خصوصی رابطہ کار آموس ہوچسٹین کی سربراہی میں سفارتی کوششوں کے نتیجے میں لبنان اور اسرائیل حتمی سمجھوتے تک پہنچ گئے ہیں۔