آئی ایم ایف

آئی ایم ایف نویں جائزہ مشن کا ملتوی ہونا خطرناک ہے،میاں زاہد حسین

کراچی (گلف آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے نویں جائزہ مشن کا ملتوی ہونا افسوسناک ہے۔ معیشت آئی ایم ایف کی ناراضگی کی سکت نہیں رکھتی اس لئے عالمی ادارے سے کئے گئے معاہدے کی پاسداری کی جائے۔ سابقہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف سے معاملات میں سنجیدگی نہیں دکھائی جس کینتیجے میں معیشت برباد ہو گئی اورروپیہ ٹشو پیپر بن گیا جس کے اثرات سے نکلنے کے لئے کم از کم دس سال درکار ہونگے۔ سابقہ حکومت کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے جاری پروگرام کی 894 ملین ڈالر کی اگلی قسط کے اجراء کیلئے نویں جائزے کی کامیابی ضروری ہے اس کے بعد ہی پروگرام جاری رہ سکتا ہے مگراب تک نہ تو سیلاب کے نقصانات اور بحالی کے اخراجات کا درست اندازہ لگایا گیا ہے اور نہ ہی ٹیکس آمدن بڑھانے کیلئے کوئی خاص اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ توانائی کے شعبہ میں اصلاحات بھی نہیں کی جا رہی ہیں اورپٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھانے میں بھی تاخیر کی جا رہی ہے تاکہ حکومت کا خسارہ کم ہو اور یہ صورتحال عالمی ادارے کے لئے ناقابل قبول ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ درآمدات پر کنٹرول کرنے سے جہاں زرمبادلہ بچ رہا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو رہا ہے وہیں حکومت کی ٹیکس آمدنی بھی متاثر ہو رہی ہے اور اکتوبر کا ریونیو ٹارگٹ بھی پورا نہیں ہوسکا ہے جو آئی ایم ایف کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ٹیکس آمدن کم از کم جی ڈی پی کے گیارہ فیصد کے برابر ہو جو موجودہ حالات میں حکومت کے لئے مشکل ہے۔ ان وجوہات کے سبب آئی ایم ایف کا جائزہ مشن اکتوبر سے مسلسل ملتوی ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے جہاں سیلاب زدگان کی مدد کا کام متاثر ہو رہا ہے اور پاکستان کو وہ رعائیتیں نہیں مل رہی ہیں جو اسکا حق ہیں وہیں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار بھی ہراساں ہو رہے ہیں اور مارکیٹ میں بے چینی بڑھ رہی ہے جس کا تدارک کیا جائے ورنہ معیشت کو بہت نقصان پہنچے گا۔ پاکستان کو پانچ دسمبر کو سکوک بانڈز کی میچورٹی کی مد میں ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ وزیر خزانہ اس ادائیگی کی یقین دہانی کروا رہے ہیں مگر سرمایہ کار اسے طفل تسلیاں قرار دے رہے ہیں اور ان حالات میں حکومت کے لئے بانڈز یا کمرشل بنیادوں پر قرضوں کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے جبکہ امسال غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے بتیس سے چونتیس ارب ڈالر درکار ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں