میاں ز اہد حسین

ناکام سرکاری اداروں کو اثاثے سمجھنے کا سلسلہ بند کیا جائے،میاں ز اہد حسین

کراچی (گلف آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ناکام سرکاری اداروں کو اثاثے سمجھنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یہ ملک پر بوجھ ہیں جو معیشت کے لئے بارودی سرنگوں کا کام کر رہی ہیں۔ ان سے فوری طور پر جان چھڑائی جائے۔ جس ملک کی 63 فیصد آبادی جوان ہو اور جہاں سالانہ کم از کم دس لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہو وہاں صنعتیں بند ہونے سے لاکھوں نوکریوں کا ختم ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ انھیں روزگار نہ ملا تو یہ ذمہ دار شہری بننے کے بجائے ملک کے لئے مصیبت بن جائیں گے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ناکام سرکاری کمپنیاں کئی دہائیوں کی کوششوں کے باوجود نہ منافع بخش بن سکی ہیں اور نہ ان کی انتظامیہ کو بہتر بنایا جا سکا ہے کیونکہ حکومتیں ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے درکار کاروباری مہارت نہیں رکھتیں اس لئے ان کو فروخت کرنا ہی بہتر ہے۔

ان سفید ہاتھیوں کو فروخت کرنے سے حکومت کو اس مشکل وقت میں کچھ سرمایہ مل جائے گا جبکہ سالانہ کئی سو ارب روپے بھی بچ جائیں گے جو اس وقت انھیں مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے لئے بیل آؤٹ کے طور پر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ ان کمپنیوں کو فروخت کرنے سے اہلیت کے حامل ملازمین کی نوکریوں کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ نئے مالکان کو بھی اہلیت کے حامل ملازمین کی ضرورت ہوگی بلکہ اداروں کی کارکردگی بہتر ہونے سے مزید نوکریوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور حکومت کو ٹیکس بھی ملے گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ ٹاپ ٹین اداروں میں پی آئی اے، ریلوے، پاور کمپنیاں اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی شامل ہیں جن کے نقصانات کل خسارے کا نوے فیصد ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ سرکاری کمپنیوں کی افادیت سے انکار ناممکن ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کا تقریباً نصف جی ڈی پی کا کریڈٹ سرکاری کمپنیوں کو ہی جاتا ہے اور اس وقت صرف یورپ میں چھ سو ایسی کمپنیاں کام کر رہی ہیں مگر پاکستان میں ایسا ہونا نا ممکن ہے کیونکہ یہاں معیشت سمیت ہر معاملہ میں سیاست کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور میرٹ کو شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں جب پرائیویٹ بزنس کا چلنا محال ہو سرکاری بزنس کیسے چل سکتا ہے۔ سیاستدانوں کا کام ملک چلانا ہے کاروباری ادارے چلانا نہیں ہے۔ اگر حکومت ان کمپنیوں کو کلی طور پربیچنا نہ چاہتی ہو تو ایک مکس ماڈل پر کام کرے جس میں اکثریتی شیرز حکومت کے پاس ہوں مگر مینجمنٹ خریدار کے ہاتھوں میں ہو جو ادارے کو منافع بخش بنانے کا ذمہ دار ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں