اسلام آباد (گلف آن لائن)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اتفاق ہوا ہے،نئے ٹیکس لگانے کیلئے منی فنانس آرڈیننس لانا پڑے گا،عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا پی ڈی ایم کی حکومت اس کو پورا کر رہی ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے ہمیں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت کا ڈرافٹ فراہم کردیا گیا ہے جس کا ہم جائزہ لیں گے ،پھر ہماری پیر کے روز ورچوئل میٹنگ ہوگی، ہم اس کو آگے لیکر چلیں گے،چند روز بعد بعد اسٹاف لیول معاہد ہوجائے گا،یکم مارچ، یکم اپریل کو ڈیزل پر 5، 5 روپے بڑھائیں گے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا پی ڈی ایم کی حکومت اس کو پورا کر رہی ہے، ریاست کی جانب سے کیے گئے معاہدے کا اطلاق کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک پرانا معاہدہ ہے جو معطل بھی ہوا، اس میں تاخیر بھی ہوئی، اس پس منظر کو آپ ذہن میں رکھیں کہ کس نے یہ معاہدہ کیا تھا اور کب یہ معاہدہ ہوا تھا۔انہوںنے کہاکہ ہماری حکومت اس معاہدے کا اطلاق کرنے کی کوشش کر رہی ہے، ہم اس پر عمل درآمد کی پوری تگ و دو کر رہے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ 10 روز تک مذاکرات جاری رہے جس کے دوران پاور سیکٹر، مالیاتی شعبے سمیت دیگر اہم شعبوں پر تبادلہ خیال اور بات چیت کی گئی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ گزشتہ روز دوپہر تک ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ تمام اہم معاملات پر مذاکرات مکمل کرلیے تھے، بعد ازاں وزیر اعظم کے ساتھ آئی ایم ایف وفد کی زوم میٹنگ کا بھی انتظام کیا گیا، میٹنگ کے دوران طے شدہ معاملات پر گفتگو کی گئی اور وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پوری کریں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ہمیں اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کی یادداشت (ایم ای ایف پی) کا ڈرافٹ صبح 9 بجے فراہم کردیا گیا ہے جس کا ہم جائزہ لیں گے اور پھر ان کے ساتھ ہماری پیر کے روز ورچوئل میٹنگ ہوگی، ہم اس کو آگے لیکر چلیں گے، اس عمل میں مزید چند روز لگیں گے، اس کے بعد اسٹاف لیول معاہد ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے سیکٹرز ہیں جن کی اصلاح کرنا پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے، ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ملک کے کئی شعبے اسی طرح خسارے میں چلتے رہیں، معیشت اسی طرح غلط پالیسیوں کے تحت چلتی رہے، گزشتہ 5 برسوں کے دوران ہم نے 24 ویں بڑی معشیت سے اس کو 47 ویں نمبر پر آگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک کے قرضے 70 فیصد بڑھ گئے، ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آگیا، شرح سود آسمان پر لے گئے، ڈیٹ سروسنگ 5 ہزار ارب کے قریب پہنچا دیا، اس کے ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کو غلط طریقے سے چلایا۔
انہوںنے کہاکہ اب ہمیں اس صورتحال کو ٹھیک کرنا ضروری ہے، بجلی سیکڑ کی لاگت 3 ہزار ارب روپے ہے ،ریکوری صرف 18 سو ارب ہے، اس کی وجہ سے گردشی قرض میں اضافہ ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اصلاحات کرنی ہوں گی، یہ اقدامات ہمارے لیے تکلیف دہ ہوں گے لیکن ہمیں ان کو کرنا ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں بھی ہم نے اصلاحات کی تھیں، ہم اب بھی اصلاحات کرنے کیلئے تیار ہیں، آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز رہے، تمام معاملات کلیئر اور واضح ہیں، کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے، کوشش کریں گے کہ پاکستان تاریخ میں دوسری مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا اتفاق ہوا ہے، کوشش کریں گے کہ کوئی ایسا ٹیکس نہ لگائیں جس سے غریب طبقہ اور عام آدمی براہ راست متاثر ہو، یہ ٹیکس رواں مالی سال کے دوران ہی جمع کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ توانائی سیکٹر میں طے شدہ اصلاحات کو نافذ کریں گے، گیس سیکٹر اور توانائی سیکٹر میں بڑھتے خسارے کو روکیں گے، انٹارگٹڈ سبسڈی کو کم سے کم کریں گے، پیٹرولیم سیکٹر میں بھی گردشی قرضے کو کم کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کا ٹارگٹ حاصل کیا جا چکا ہے جب کہ ڈیزل پر پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی اس وقت 40 روپے فی لیٹر ہے جسے بڑھا کر 50 روپے کیا جائے گا، اس کو یکم مارچ اور یکم اپریل کو 5، 5 روپے بڑھا کر پورا کیا جائے گا۔
انہوںنے کہاکہ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کو معاہدے پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، پاکستان آئی ایم ایف پروگرام پورا کرے گا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کیا جائے گا تاکہ ملک کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کیا جاسکے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ نئے ٹیکس لگانے کیلئے منی فنانس آرڈیننس لانا پڑے گا۔
انہوںنے کہاکہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اعداد و شمار جاری کر دیے جائیں گے لیکن 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سابقہ حکومت ہے، اعتماد کا فقدان ہے، وہ کہتے ہی کہ اس ملک میں حکومت نے معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اس کو الٹا کردیا، اس اقدام نے پاکستان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات کے دوران اس کا بہت منفی اثر رہا، وہ پر اعتماد نہیں تھے کہ ہم اپنی کمٹمنٹ پر عمل کریں گے یا نہیں، اس کا جواب میرے پاس یہ ہے کہ کوئی بتائے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کوئی وعدہ کیا ہو اور اس کو پور ا نہیں کیا ہو، جس چیز پر آپ عمل نہیں کرسکتے، اس پر اتفاق نہیں کرنا چاہیے، اسی بات کی کمٹمنٹ کرنی چاہیے جس پر آپ عمل کرسکیں اور ہم نے ایسا ہی کیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جولوگ یہ کہہ کر پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرگیا، انہیں سمجھائیں، اگر وزیر اعظم دوسرے ملکوں میں جا کر کہے گا جو کہ کہتا تھا کہ ہم بدعنوان ملک ہیں، تو کوئی ملک سرمایہ کاری کرے گا، ہر شخص کو غیر ذمے دارنہ بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔زرمبادلہ کے ذخائر کی گرتی صورتحال پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ دوست ممالک کے ساتھ کیے وعدے پورے ہوں گے اور ڈالرز موصول ہوں گے، ہم نے 414 ملین ڈالر کے غیر ملکی ذخائر پر بھی گزارا کیا ہے، اس لیے پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔