صدر مملکت

ملک کے حالات خرب ہیں ،حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے ،صدر عارف علوی

حیدرآباد(گلف آن لائن)صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ نہایت خراب حالات میں چارٹر آف اکانومی سمیت اہم قومی ایشوز پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے اہم ضرورت ہے جس کے لئے وہ مسلسل کوششیں کرتے آ رہے ہیں مگر سب میں تیس مار خان ہونے کے احساس اور انا پرستی کے باعث کوئی باہم مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، یہ رویہ ٹھوس قومی پالیسیوں کی تشکیل اور تسلسل میں بڑی رکاوٹ ہے، ہر قسم کے حالات میں آئین اور قانون کی بالادستی اور وقت پر انتخابات کا انعقاد جمہوریت کا تقاضا ہوتے ہیں ورنہ 90 روز میں انتخابات کا وعدہ ہونے میں بعض مرتبہ 11 سال لگ جاتے ہیں، ملک کے موجودہ حالات کا فیز عارضی ہے معاشی ترقی میں آئی ٹی کا شعبہ اس وقت بین الاقوامی سطح پرسب سے اہم ہے جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، پاکستان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ اس سے پاکستان چند سال میں ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل سکتا ہے۔

وہ حیدرآباد ایوان صنعت و تجارت کے زیر اہتمام سول ایوی ایشن اتھارٹی آڈیٹوریم ایئر پورٹ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے، ایوان صنعت و تجارت حیدرآباد کے صدر عدیل عماد صدیقی، سرپرست محمد اکرم راجپوت، نائب صدر نجم الدین قریشی نے بھی خطاب کیا اور نظر انداز شدہ حیدرآباد کے صنعتکاروں، تاجروں اور کاروباری برادری کیسنگین مسائل مہنگائی، معاشی اور ٹیکس پالیسی سازی میں حکومت کی عدم مشاورت سے صنعتی معاشی نقصانات سے آگاہ کرتے ہوئے معاشی پالیسیوں کے تسلسل کے لئے میثاق معیشت کرانے پر زور دیا اور ڈاکٹر عارف علوی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا کہ وہ پہلے صدر پاکستان ہیں جو ایوان صنعت و تجارت حیدرآباد کی کسی تقریب میں شریک ہوئے ہیں، تقریب میں جمعیت علما پاکستان (نورانی) کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو، اسری یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نذیر اشرف لغاری، ایم پی اے ندیم صدیقی، تحریک انصاف کے رہنما کیو محمد حاکم، نواب خان، کمشنر حیدرآباد بلال میمن، ڈی آئی جی پولیس حیدرآباد ریجن سید پیر محمد شاہ، دیگر اعلی افسران اور اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی ترقی میں صنعت و تجارت اور کاروبار سے وابستہ برادری کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس کو یہ مستقل شکایت رہی ہے کہ معاشی پالیسی سازی میں ان سے مشاورت نہیں کی جاتی، انہوں نے کہا کہ انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ اپنے آپ کو افلاطون سمجھتا ہے اور کسی سے مشورے کی ضرورت نہیں سمجھتا، یہ بہت خراب رویہ ہے کہ مسائل کے حل اور معاملات کو چلانے میں مشاورت کو اپنی ہتک سمجھا جاتا ہے اور کوئی اپنی سمت درست کرنے کے لئے تیار نہیں ہے،

انہوں نے کہا کہ میں نے 26 سال تک عمران خان کے ساتھ کام کیا ہے حیدرآباد میں بھی چھوٹے بڑے پروگراموں میں بارہا شریک رہا ہوں اس لئے مجھے اندازہ ہے کہ دوسرے کو اپنی بات کے سلسلے میں قائل کرنا بہت مشکل کام ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف میں دونوں کو بٹھا کر ملک کو موجودہ انتہائی پریشان کن معاشی اور سیاسی حالات سے نکالنے کی کوشش کرتا آ رہا ہوں لیکن ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ملی، لیکن میں یہ کوششیں کرتا رہوں گا، انہوں نے کہا کہ جس طرح بارش ہونے والی ہوتی ہے تو ہنگامی طور پر کچھ ہنگامی تدابیر اختیار کر لی جاتی ہیں ہمارے یہاں بھی اسی طرح کیا جاتا ہے مسائل کے حل کے لئے مستقل طور پر پالیسی سازی اور عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے، مشاورت کو اپنی بے عزتی سمجھا جاتا ہے اور گھمنڈ کا احساس حائل رہتا ہے،

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے مجھے عزت دی ہے اسی عطا کی وجہ سے میں اعلی ترہن مقام پر ہوں لیکن میں اس منصب کے قابل نہیں ہوں، اس منصب پر بہت بڑی اور اہم شخصیات فائز رہ چکی ہیں میں اپنے منصب کے تقاضوں کے مطابق کوشش کرتا آ رہا ہوں کے سب اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر سیاسی معاشی بحران کا مستقل حل تلاش کیا جا سکے، انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشی حالات بہت خراب ہیں ان کو درست کرنے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات اور کمٹمنٹ کی ضرورت ہے اس کے لئے حکومت، سیاسی قیادت، صنعتکار، تاجر برادری سب پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہر شخص کہتا ہے کہ ملک میں کرپشن بہت زیادہ ہے مگر کرپشن کرنے والوں کو پکڑا نہیں جاتا، کرپشن کا خاتمہ صرف حکومت یا سیاستدانوں کی ذمہ داری نہیں ہے،

آپ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیوبکہ سیاستدان بھی آپ ہی بناتے ہیں، 80 فیصد عام لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے وہ بھی آپ جیسے کامیاب لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں کہ آپ ملک کو ان حالات سے نکالیں گے اور ترقی کی راہ پر لے جانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے، انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا کردار بینک جیسا ہے جب آپ بینک سے قرضہ لینے جاتے ہیں تو وہ اپنی شرائط رکھتا ہے تاکہ اس قرضے کو آپ درست طور پر استعمال کر سکیں کہ قرضہ واپس کرنے کے قابل بھی رہیں، اسی طرح آئی ایم ایف بھی اپنی شرائط رکھتا ہے اور اس کے پروگرام کے بعد دوست ممالک بھی سمجھ لیتے ہیں کہ آپ ان کے دیئے ہوئے قرضوں کو ٹھیک طور پر استعمال کرنے کے قابل ہوں گے اور ایسی پالیسیاں بنائیں گے کہ قرض واپس کر سکیں گے،

ان سارے معاملات کا سب کو علم ہے مگر ہم خود اپنے آپ سے مخلص نہیں ہیں تو باہر کے لوگ ہمارے لئے کیا کریں گے، بے ایمانی اور کرپشن ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، انہوں نے پاکستان میں سستی سولر انرجی کے مواقع پر روشنی ڈالی اور سولر انرجی کے پھیلا اور آئی ٹی کے شعبے کے فروغ پر خصوصی زور دیا اور کہا کہ آئندہ آئی ٹی کی بین الاقوامی طور پر اہمیت بہت بڑھ جائے گی اور ہم ہیومن ریسورسز سے بین الاقوامی طور پر اپنی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکیں گے، انہوں نے کہا کہ آئی ٹی ایسا شعبہ ہے کہ ہماری خواتین گھر بیٹھ کر بھی کام کر سکتی ہیں اور معیشت کی ترقی میں ان کا حصہ کہیں بڑھ سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بیٹوں اور دامادوں کو تو کاروبار میں شامل کر لیتے ہیں لیکن بیٹیوں، بہنوں اور بہووں کو نظرانداز کرتے ہیں حالانکہ اسلام میں خواتین کے تجارت اور کاروبار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے،

ام المومنین حضرت خدیجہ خود تجارت کے شعبے سے وابستہ تھیں جبکہ بانی پاکستان قائد اعظم بھی معاشی دوڑ میں خواتین کو شامل کرنے پر زور دیتے رہے، معیشت سمیت قومی معاملات میں خواتین کی شرکت کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہم انڈیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہاں سو فیصد بچے اسکو جاتے ہیں، سری لنکا جیسے ملک میں بھی یہ تعداد 98 فیصد ہے، پاکستان میں 68 فیصد بچے ہی پرائمری اسکول جا پاتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ مزدوری ہی کریں گے یا معمولی قسم کی ملازمت ہی انہیں مل سکے گی، تعلیم کی اس صورتحال کے ذمہ دار یقینا سیاستدان بھی ہیں لیکن صنعت و تجارت سمیت دیگر شعبوں کے باشعور لوگ بھی اس میں برابر شریک ہیں،

انہوں نے کہا کہ یہ درست بات کہی گئی ہے کہ میں حکومت، حزب اختلاف سمیت تمام فریقوں کو ساتھ بٹھا کر چارٹر آف اکانومی کے لئے کوشش کروں اور اس طرح ملک کو امن اور مستحکم جمہوریت کی طرف لے جایا جا سکے، میں اس کے لئے کوشش کرتا آ رہا ہوں یقینا آپ اس سے واقف ہیں لیکن اس کے لئے ایک نظرئیے کے مطابق سمت درست کرنے کی ضرورت ہے، لیکن یہاں کوئی کسی سے بات کرنے کو تیار نہیں ہے، جس سے کہو وہ کہتا ہے تم جانتے نہیں ہو میں کون ہوں؟ منافرت اور انا پرستی سے صورتحال درست نہیں ہو سکتی، انہوں نے کہا کہ اس وقت معاشی طور پر ملک ڈوب رہا ہے، کشیدگی اور افرا تفری بہت زیادہ ہے، تمام فریقوں کو ساتھ بٹھا کر اس ماحول کو ختم کرنے کے لئے میں پوری کوششیں کرتا آ رہا ہوں اور کرتا رہوں گا، انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مہنگائی اور بیروزگاری بہت زیادہ ہے لیکن اس مثال کو ہمیں سامنے رکھنا چاہئیے کہ چین نے صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دی اور پھر 10 سال میں ایک نئی قوم نے جنم لے لیا، ہمیں بھی اچھے اور صحت مند دماغ پیدا کرنا ہوں گے جو ہم نہیں کر رہے،

اگر سندھ پنجاب سمیت کسی بھی صوبے میں تعلیم کی صورتحال خراب ہے تو اس کہ ہم سب ذمہ داد ہیں، اس لئے ہیومن ریسورسز کے لئے سب سے زیادہ انویسٹمنٹ کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ قومی اسمبلی کی پبلک اکانٹس کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے مجھے تجربہ ہے کہ مختلف اداروں کے سیکریٹریز کو جب کرپشن کے بڑے کیسز میں طلب کیا جاتا تھا تو ہر کوئی کہہ دیتا تھا کہ یہ سابق سیکریٹری کا معاملہ ہے میں تو ابھی چند ماہ پہلے آیا ہوں، ہمیشہ ایسی ڈرامہ بازی جاری رہتی تھی اور پھر تبدیل ہو کر کوئی نیا سیکرہٹری آ جاتا تھا، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ، عدلیہ، انتظامیہ میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، یہ ہمارے سامنے ہے کہ ایک فیصلے سے بلوچستان کے ریکوڈیک منصوبے سے ملک کو کتنا نقصان ہوا، اسٹیل مل کی نجکاری نہیں ہو سکی، اس طرح جسٹس منیر سے لے کر عدلیہ کا کوئی اچھا ریکارڈ نہیں رہا،

احتساب کے سب سے بڑے ادارے نیب کے بارے میں قانون سازی کی متنازعہ ہے وہ بھی آج ہمارے سامنے ہے، صدر عارف علوی نے کہا کہ میں نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات بروقت کرانے اور آئین و قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے بارے میں خط لکھا تھا کیونکہ پاکستان میں یہ مثالیں موجود ہیں جب بروقت انتخابات نہیں کرائے گئے تو 90 دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ 10 سال بعد ہی پورا ہو سکا، انہوں نے کہا کہ بروقت انتخابات نہ کرائے جائیں تو جمہوریت فارغ ہو جاتی ہے، بہت سے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہے کہ جنگ اور سنگین حالات کے دوران بھی انتخابی عمل کو التوا میں نہیں ڈالا گیا کیونکہ انتخابات ہی جمہوریت کے استحکام کا ذریعہ ہے، اگر اس کی پاسداری نہ کی جائے تو ایم آر ڈی جیسی تحریک چلا کر بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور ایک وزیر اعظم کو بھی قربان ہونا پڑتا ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا میں پانچویں بڑی قوم ہے یہاں اہلیت رکھنے والے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں،

اگر قومی مفاد کے مطابق تمام اسٹیک ہولڈر آئین قانون کے دایرییں جمہوری تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنے کا مسمم ارادہ کر لیں تو ملک ایک عشرے میں بہت آگے جا سکتا ہے اور موجودہ بحران عارضی ثابت ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے، کرپشن، میرٹ کی خلاف ورزی اور اقربا پروری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، میڈیا کے ایک خاص حلقے کی طرف سے یہ تاثر دینا کہ چھوٹے یا بڑے بے ایمان تمام سیاستدان ایک جیسے ہیں یہ گمراہ کن موقف ہے، کوئی مکمل پرفیکٹ نہیں ہوتا جو لوگ میدان میں موجود ہوں انہی میں سے بہتر انتخاب کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ 80 فیصد عوام غربت سے بے حد پریشان ہیں وہ خود کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں ان کا صنعت و تجارت سے وابستہ جیسے باشعور طبقات پر بھروسہ ہے کہ وہ ان کے لئے کچھ کریں اور حالات کو بدلیں، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی بہنوں، بیٹیوں، بہووں کو معیشت سمیت زندگی کی دوڑ میں شامل کرنے کے لئے نبی پاکۖ اور قائد اعظم کی تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں