عمران خان

نیا چیف آنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی، سختیاں بڑھ گئی ہیں، عمران خان

لاہور (گلف آن لائن) پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نے سوچا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی ،لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی ، سختیاں بڑھ گئی ہیں، یہ بیان چل رہے ہے کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں ، کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو،سیاسی آدمی ہوں میں سب سے بات کروں گا، سوائے چوروں کے ،مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں، جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں سابق وزیراعظم کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ آپ سے بات کرے تو کیا آپ کریں گے میں نے کہا میں سیاسی آدمی ہوں میں سب سے بات کروں گا، سوائے چوروں کے۔

عمران حان نے واضح کیا کہ انھوں نے کبھی نہ آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ شہباز شریف کو۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ بیان چل رہے ہے کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں تو مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں تو اسے بیساکھیاں درکار نہیں ہوتیں۔ عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ کیا فوجی قیادت تبدیل ہونے سے ان کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں کوئی فرق آیا تو ان کا کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کا کہنا تھا ہم پر جنرل باجوہ کے دور میں کیسز بنے۔ اس سے پہلے کبھی سینیئر لوگوں پر اتنا حراستی تشدد نہیں ہوا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم نے سوچا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ سختیاں بڑھ گئی ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے 90 دن میں الیکشن کروانے کا حکم دیا۔ صدر نے بھی اعلان کردیا لیکن ہم انتخابی ریلی کرتے ہیں تو پولیس آ جاتی ہے۔ گاڑیاں توڑیں گئیں۔ واٹر کینن ہوا۔ لوگوں کو گرفتار کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا نگران حکومت کا کام ہوتا ہے انتخابات کروانا۔ یہ کیسے روک سکتے ہیں۔

اگر الیکشن کروانا ہیں تو انتخابی مہم اور ریلی کے بغیر الیکشن کیسے ہوتے ہیں؟ خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے لاہور کے علاقے زمان پارک کے اردگرد اپنے کارکنان کی پولیس سے جھڑپوں کے بعد بدھ کو نکالی جانے والی انتخابی ریلی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پولیس نے اس ریلی کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے بھی پولیس پر پتھرا وکیا گیا۔ اس تصادم میں جہاں 11 پولیس اہلکار زخمی ہوئے وہیں تحریکِ انصاف کی جانب سے بھی اپنے ایک کارکن کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا ہے ۔ اپنے پیغام میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ الیکشن سے بھاگنے کے لیے اس قسم کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے کارکن کسی قسم کے انتشار کا حصہ نہ بنیں تاکہ حکومت کو الیکشن سے بھاگنے کا موقع نہ مل سکے۔ عمران حان کا کہنا تھا کہ یہ حکومتی جماعتیں خوفزدہ ہیں۔ چند ماہ میں ہونے والے 37 ضمنی انتخابات تحریک انصاف جیت چکی ہے۔

ان کی شہرت تو یہ ہے کہ یہ خود سڑکوں پر نکل نہیں سکتے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ الیکشن نہ ہوں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ انتشار چاہتے تھے۔ ہم چاہتے تو رات تک لڑائی چلتی رہتی لیکن ہم ان کو موقع نہیں دینا چاہتے کہ یہ انتشار کو وجہ بنا کر الیکشنز سے نکل جائیں۔ الیکشن ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے تاریخیں دی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ نے اسے حکم دیا ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کراوانا چاہتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک ہر قسم کا بہانہ دیا جا رہا ہے کہ کیوں الیکشن نہیں ہونا چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی بڑی شخصیت کا قتل کروا دیں گے جیسے بینظیربھٹو کا ہوا۔ ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح الیکشن سے نکلیں۔ اس سوال پر کہ اگر الیکشن نہیں ہوتے تو وہ کیا کریں گے؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ توہینِ عدالت ہو گی۔ آئین کہتا ہے، سپریم کورٹ کے جج کہتے ہیں۔ اگر یہ نہیں کروائیں گے تو آئین اور قانون ختم ہو جائے گا۔

تحریکِ انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ یہ چاہتے ہیں میں ڈس کوالیفائی ہوں جاوں یا جیل چلا جاوں اور یہ الیکشن جیت جائیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ قوم حکومتی جماعتوں کے خلاف ہو چکی تھی اس لیے میں 2018 کا الیکشن جیتا۔ اب جو مہنگائی ہوئی ہے اب تو یہ جماعتیں بالکل دفن ہو چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم تو الیکشن چاہتے ہیں صرف بات یہ کرنی تھی کہ عقل نہیں کہتی کہ سارے الیکشن اکٹھے کروا دیں۔ ملک کا بھی فائدہ ہے۔ عوام کو چننے دو کہ وہ کِسے چاہتے ہیں۔ جو حکومت آئے گی وہ مسئلے حل کرے گی۔ پرویز الہی کو پارٹی میں اہم عہدہ دیے جان سے کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھا کہ وائس چیئرمین پارٹی کی نمبر ٹو قیادت ہوتا ہے۔ پرویز الہی نے اسٹیبلشمنٹ کا دبا برداشت کیا، وہ مشکل وقت میں ہمارے ساتھ رہے اس لیے انھیں عزت دینے کے لیے پارٹی کا عہدہ دیا۔ عمران خان کا اپنی صحت کے حوالے سے کہنا تھا کہ میری ٹانگ میں جو زخم ہیں ان کی صحت یابی سست رفتار ہے۔

ڈاکٹرز نے چلنے اور کھڑے رہنے سے منع کیا تھا لیکن میں بعد میں لاہور اور اسلام آباد عدالت گیا لیکن وہاں سکیورٹی نہیں تھی۔ وزرات داخلہ نے بھی کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے مجھے پتا ہے میری جان کو خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے وکیل نے کہا سکیورٹی کی ضمانت دیں ورنہ ویڈیو کانفرنس کر لیں۔ جو آج کل ہوتی ہے۔ مجھے پر 70 سے زیادہ کیسز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف کیسز عجیب نوعیت کے ہیں جو عدالت میں جاتے ہی ختم ہو جائیں گے۔ اپنی گرفتاری سے متعلق ان کا کہنا تھا یہ چاہتے ہیں میں انتخابی مہم نہ چلاں۔ یہ کپتان کے بغیر میچ کھیلنا چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں