لاہور(گلف آن لائن)وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، ترقی و خصوصی اقدامات احسن اقبال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے عجلت میں فیصلہ دے کر ملک کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے، پنجاب کے اندر چھ ماہ پہلے حکومت بننے سے پنجاب کی ملک کے انتخابی عمل کے اوپر اجارہ دارہو جائے گی، آئندہ وفاق میں جو بھی حکومت بنے گی وہ پنجاب کے زیر سایہ ہوا کرے گی اور یہ ایسا اقدام ہے جس سے پاکستان کا وفاق کمزور ہوگا اوردیگر صوبوںمیں احساس محرومی پیدا ہوگا ،
پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بہت بڑا دوراہا ہے کہ کیا ہم وہی کھیل دہراتے رہیں گے جو 75سال سے کھیل رہے ہیں یا نیا طرزعمل یا ایک نئی راہ اپنائیں گے ،دنیا میں جاپان ،کوریا ،سائوتھ کوریا، ملائیشیاء ،چین ،تھائی لینڈ ،ویت نام ،ترکی ،بھارت اوربنگلہ دیش جس ملک نے بھی ترقی کی ہے ان میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی کہ وہاں پر دس سال پالیسی کا تسلسل نظر آئے گا، لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں آپ کے سیاست میں بال سفید ہو گئے ہیں ، آپ کو اتنی عقل سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ آپ نے عمران خان حکومت کا سارا ملبہ اپنے اوپر لے کر خود کو سیاسی طور پر پھانسی پر چڑھا لیا ، ہمارے پاس چوائس تھی کہ پاکستان کی سسکتی ہوئی معیشت سری لنکا کی منزل کی طرف بڑھتی رہے اور ہم آنکھیں پھیر کرگزر جاتے
لیکن ہمیں اطمینان ہے ہم جس راستے پر چل پڑے ہیں سال دو سال میں جس طرح ہم نے 2013میں ٹرن ارائونڈ کیا تھا دوبارہ ٹرن ارائونڈ کریں گے ہم دوبارہ فاسٹ ٹریک پر چلیں گے،آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے سابقہ حکومت کی جو شرائط تھیں انہیں پورا کر دیا ہے اور امید ہے کہ آئندہ چند روز میں آئی ایم ایف سے قرض کی حتمی منظوری مل جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے مقامی ہوٹل میں صحت کے تحفظ سے متعلق انٹر نیشنل کانفرنس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔
احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان حکومت آئی ایم ایف سے جو معاہد ہ کر کے گئی تھی موجودہ حکومت نے اس کی تقریباً تمام شرائط پر عملدرآمد کر دیا ہے ، اب ہم سمجھتے ہیں آئی ایم ایف کے معاملے حتمی دور میں داخل ہو گئے ہیں ، جو تھوڑی بہت تاخیر ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ حکومت کی کوشش کہ عوام جو پہلے ہی مہنگائی کے چکی میں پسے ہوئے ہیں ، انہیں مزید سخت اقدامات سے زیادہ سے زیادہ بچایا جائے، آئی ایم ایف کی کوشش ہے کہ پروگرام کو زیادہ سے زیادہ فرنٹ لوڈ کیا جائے کیونکہ پچھلی حکومت کے ساتھ ان کا بہت تلخ تجربہ رہا یہ اعتماد کا بحران ہے جو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہے اور اس کی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑر رہا ہے ،مجموعی طو رپر پروگرام کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں اور میں امید رکھتا ہے چند دنوں کے اندر حتمی طور پر قرض منظور ہو جانا چاہیے ۔
انہوںنے کہا کہ عمران نیازی پوری دنیا کو لیکچر دیا کرتے تھے کہ مغربی جمہوریت کیا ہوا کرتی ہے، قانو ن کی حکمرانی کیا ہے ، اب عوام دیکھ رہے ہیں وہ شخص کس طرح عدالتوں کا منہ چڑھا رہا ہے ، عدالتیں اسے طلب کرتی ہیں تو وہ عدالتوں میں پیش ہونا اپنی توہین سمجھتا ہے ،جبکہ نواز شریف ، شہباز شریف اور ہم سب جب بھی کسی ادارے نے جھوٹے مقدمے میں طلب کیا ہم جاتے رہے ۔ نواز شریف کی اہلیہ بستر مرگ پر تھیں وہ ان کو چھوڑ کر اپنی حاضری کو یقینی بناتے رہے ہیں۔ میرے بازو پر گولی تھی اور آپریشن ہوا تھا اس کے تیسرے دن نیب نے طلب کیاتو میں نے میڈیکل کا بہانہ نہیں بنایا اور پیش ہوا اور انہوںنے مجھے گرفتار بھی کر لیالیکن ہم نے ماتھے پر شکن نہیں ڈالی کیونکہ ہمارا من صاف تھا لیکن جن کے من میں چور ہو وہ عدالتوں سے بھی فرار کرتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو کبھی ویل چیئر پر کبھی سٹریچر پر ہوتے ہیں اور ان کی چیخیں سنی جاتی ہیں۔
ہم نے عمران نیازی کے جھوٹے مقدمات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا ہے ۔ اب وقت ہے کہ عمران خان کو اس دھوکے فریب کے لئے اور ان جرائم کے لئے جو انہوں نے کئے ہیں جواب دینا ہوگا اور سپریم کورٹ کا بھی امتحان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری انتخابی مہم بھی شروع ہے اور جب انتخابات کا حتمی طور پر فیصلہ ہوگا بھرپور طریقے سے حصہ لیں گے۔ سپریم کورٹ نے جو عجلت میں فیصلہ کیا ہے میری نظر میں اس نے پاکستان میں دائمی سیاسی بحران کے بیج رکھ دئیے ہیں۔ پنجاب کے اندر چھ ماہ پہلے حکومت بنا کر اب آئندہ وفاق میں جو بھی حکومت بنے گی وہ پنجاب کے زیر سایہ ہوا کرے گی
یہ اتنی بڑی ڈسٹورشن ہے جس سے وفاق کمزور ہوگا ہمارے دیگر صوبوںمیںاحساس محرومی پیدا ہوگا کہ جب بھی عام انتخابات ہوگا چھ ماہ پہلے پنجاب کے صوبائی الیکشن کے نتیجے میں پنجاب کی حکومت جو 52فیصد پاکستان پر حکمران ہو گی وہ قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہو گی لہٰذا پنجاب کی ملک کے انتخابی عمل کے اوپر اجارہ دارہو جائے گی یہ پاکستان کے وفاق کے لئے بہت ہی خطرناک عمل ہے جو اگر ہوگا تو اس سے وفاق بہت نقصان اٹھائے گا اس لئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات اکٹھے ہونے چاہیں ،اکتوبر2023اس کی آئینی تاریخ ہے ، اس وقت مرم شماری کا عمل جاری ہے اگر آپ قومی اسمبلی کے انتخابات نئی مردم شماری پر کریں گے
اور پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کے انتخابات پرانی مردم شماری پر ہوں گے ،چھ ماہ بعد پنجاب اور خیبر پختوانخواہ میں کوئی سیٹ خا لی ہو تی ہے وہاں پر ضمنی انتخاب ہوتا ہے تو وہ کس بنیاد پر ہوگا کسی کے پاس جواب نہیں ہے جن پر سپریم کورٹ کو غور و فکر کرنا چاہیے تھاکہ بجائے یہ کہ ایک عجلت میں فیصلہ دے کر ملک کو ایک نئے سیاسی بحران میں دھکیل دیا ہے ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ آج پاکستان جہاں کھڑا ہے اور دنیا جن مسائل کا سامنا کر رہی ہے اس میں پوری دنیا میں کامیاب ترقی کا ماڈل ان ممالک کے پاس ہے جہاں پر ان کی یونیورسٹیز معیشت کیلئے انوویشن کے لئے انجنز کے طور پرکام کر رہی ہیں۔
آج جو چیلنجز ہیں انہیںٹیکنالوجی اور انوویشن نے الیکٹران کی سپیڈ کی ساتھ تیز کر دیا ہے ، جب پہلا صنعتی انقلاب آیا ہے تو سٹیم انجن کی طاقت انسان کے دسترس میں آئی جس سے صنعتی انقلاب وجود میں پایا اس نے یکا یک گھوڑے کی رفتتار کو پہیہ کی رفتار سے منسلک کر دیا، دنیا آگے جاتی رہی اوراب الیکٹران کی سپیڈ انسان کی ترقی اور اس کے تمدن کا فیصلہ کر رہی ہے ۔انہوںنے کہا کہ لاکھوں ڈالر ز کی وہ کمپنیاں جو انوویشن کا ساتھ نہیںدے سکیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئی ،آج یہ چیلنج ہے کہ ہر ملک ہر کاروبار اور معیشت جسے چیلنجز درپیش ہیںوہ اس کے لئے انوویشن کے ذریعے سلوشنز تیار کرے گا اور جو مواقع ٹیکنالوجی کے ذریعے دستیاب ہو رہے ہیں کتنی تیزی کے ساتھ انہیں پرانی ٹیکنالوجی سے تبدیل کرے گا ۔ یہی وہ چیلنج ہے جس کو ہم نے وژن2025کے تحت لانچ کیا تھا،جب 2013ء میں نے ہم نے اسے شروع کیا تو لوگ ہنستے تھے جیس
ے ہم اگر آج یہ کہیں کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا سفر شروع کر رہے ہیں تو لوگ کہیں گے آپ مہنگائی نہیں دیکھتے ملک کی معیشت نہیںدیکھتے کہ ایک ایک ڈالر کی ایل سی پھنسی ہوئی اور آپ ہمیں شیخ چلی کے خواب دکھا رہے ہیں،2013-14 میں ہم نے کہا تھا کہ پاکستان کو ٹاپ 25معیشتوں میں شامل کریں گے لیکن اس وقت کے سقراط اوربقراط نے بھی ہمیں شیخ چلی کہا تھاکہ یہ خواب کسی اور کو پیش کریں ، اس وقت بھی جب 16گھنٹہ بجلی نہیں تھی ہر روز ملک میں کسی جگہ خود کش بمبار درجنوںلوگوں کواپنے ساتھ لے جاتا ہے ، کراچی جو ہمارا فنانشل کیپٹل تھا وہاں کوئی بھی شخص صبح نکلتے ہوئے یہ ضمانت لے کر نہیںنکلتا تھا کہ شام کو خیریت سے واپس آجائے گا ۔
لیکن جب ہم نے نیک نیتی کے ساتھ محنت کے ساتھ سفر شروع کیا تو 2017 میں صفحہ اول کے غیر ملکی کنسلٹنٹ ادارہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اگر پاکستان اس اس رفتار سے ترقی کرتا رہا تو 2023 تک ٹاپ 25معیشتوں میں شامل ہو ، یہ وہی غیر معمولی ٹرن ارائونڈ تھا کہ جب پاکستان 16سے18گھنٹے بجلی سے محروم تھا امن و امان کی صورتحال ابتر تھی کوئی بیرونی سرمایہ آنے کیلئے تیار نہیں تھا ،نیوزک ویک کے ٹائٹل پر پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیا جارہا تھا لیکن تین سے چار سال میں اسی ملک کو وہی بین الاقوامی حلقے اورادارے تیز ترین ترقی کرتی ہوئے معیشتوں میں شمار کر رہے تھے ،اس کو 2030تک ٹاپ 20 ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں شامل ہونے کی نوید سنا رہے تھے ، وہی ممالک جو پاکستان کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے غیر محفوظ سمجھتے تھے وہی اسے محفوظ ترین قرار دے رہے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ اس میں سب سے اہم کردار پاکستان کے دوست ملک چین نے ادا کیا ، سی پیک کا منصوبہ جس کے نتیجے میں 29ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے انہوںنے پاکستان کی بین الاقوامی پروفائل کوتبدیل کر دیا ، جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھتے تھے وہی اب پاکستان کو کو للچائی ہوئی نظر وں سے دیکھنے لگ گئے ، 2017-18میں امریکہ کے سفیر ،برطانیہ کے ہائی کمشنر ،یورپی کمیشن کے سفراء ایک سوال کرتے تھے کہ ہمیں یہ بتائیں کہ ہمارے ملک کی کمپنیاں سی پیک کے منصوبوں میں کیسے اشتراک کر سکتی ہیں۔ اصل تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ وہ ملک جسے دہشتگردوں کی آماجگاہ قرار دیا جاتا تھا اسے عالمی سرمایہ کار دنیا میں سرمائے کے لئے محفوظ ترین ملک قرار دے رہے تھے ۔
سی پیک کے منصوبے میں طویل المدت پالیسی تشکیل پائی ، 2030ء تک چین پاکستان کی پارٹنر شپ کے تحت توانائی ،انفراسٹر اکچر ،زراعت ،غربت کے خاتمے ،برآمدات بڑھانے ،سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبوںمیں کام کرنا تھا ، اس میں سب سے اہم یہ تھی کہ سی پیک کے نتیجے میںاگلے مرحلے میںانڈسٹریل کوآپریشن کے ذریعے چین سے 30سے40ارب ڈالر کی پرائیویٹ سرمایہ کاری پاکستان کی زراعت اور صنعت میں لے کر آنی تھی وہ ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ تھا کہ اگر 2018کی تبدیلی نہ آتی اورپالیسیوں میں تسلسل رہتا اور یہ سرمایہ کاری آ جاتی ہے
تو آج پاکستان کا شمار دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا لیکن بد قسمتی سے ہم نے اپنے ہاتھوں سے اس ترقی کے سفر کو کریش کر دیا ۔آپ میرے پرانی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں میں ا س وقت بڑی دردمندی سے کہتا تھا کہ قدرت نے ہمیں تیسرا موقع دیا ہے اس سے پہلے ہم ترقی کے دو کیچ ڈراپ کر چکے ہیں ،1960میں جب ہم ایمر جنگ جاپان تھے،1965کی جنگ آئی تو ہم اس میں الجھ کر ڈی ٹریک ہو گئے ، دوسرا موقع 1990-91میں ملا تھا اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف ین اصلاحات کیں،نجکاری کی ، لبرائز کیا ِ ،صنعتوں سے کنٹرول کو ختم کیا،فنانشل سیکٹر کو پرائیویٹ سیکٹر کے لئے اوپن کیا ،پی ٹی سی ایل کی مناپلی ختم کی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو 7.7فیصد گروتھ پر کھڑا کر دیا لیکن اس حکومت کو سال میں چلتا کیا گیا اور بھارت نے ہماری اسی پالیسی کو اپنایا اور ہمیں اوور ٹیک کر گیا ۔
احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر ایک بہت بڑا دوراہا ہے کہ کیا ہم وہی کھیل دہراتے رہیں گے جو 75سال سے کھیل رہے ہیں یا نیا طرزعمل یا ایک نئی راہ اپنائیں گے ،دنیا میں جاپان ،کوریا ،سائوتھ کوریا ،ملائیشیاء ،چین ،تھائی لینڈ ،ویت نام ،ترکی ،بھارت اوربنگلہ دیش جس ملک نے بھی ترقی کی ہے ان میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی کہ وہاں پر دس سال پالیسی کا تسلسل نظر آئے گا، بی جے پی بی اور کانگریس نے دو ،دو مدت پوری کی ہیں،معاشی پالیسی کو نتیجہ خیز ہونے کے لئے کم از کم دس سال کا تسلسل چاہیے ہوتا ہے ، اگر ہم اس سفر کو درمیان میں توڑ دیں گے تو صفر سے شروع کریں گے اور یہ بار بار صفر شروع کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہم سب کو اس خطرے کا احساس ہونا چاہیے جس جگہ پر ہم کھڑے ہیں لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں آپ کے سیاست میں بال سفید ہو گئے ہیں ، آپ کو اتنی عقل سوجھ بوجھ نہیں کہ آپ نے عمران خان حکومت کا سارا ملبہ اپنے اوپر لے کر خود کو سیاسی طور پر پھانسی پر چڑھا لیا ہے ، لوگوں کی تنقید کے تیر اور نشتر آپ کی طرف آرہے ہیں ، کیا آپ کا دماغ چل گیا تھا لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم اتنے بیوقوف نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب آپ گھر سے صاف ستھرا بوسکی کا سوٹ پہن کر نکلیں اور راستے میں آپ کو اپنا کوئی قریبی عزیز زخمی خون میں لت پت نظر آ جائے تو کیا آپ اسے اس وجہ سے نہیں اٹھائیں گے کہ آپ کا بوسکی کا سوٹ خراب ہو جائے گا، خون کی وجہ سے گاڑی کی پوشش خراب ہو گی یا آپ اسے ہسپتال پہنچا ئیں گے جہاں ڈاکٹر اس کا آپریشن کرے گا اور وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔
ہمارے پاس بھی یہی چوائس تھی کہ پاکستان کی سسکتی ہوئی معیشت سری لنکا کی منزل کی طرف بڑھتی رہے اور ہم آنکھیں پھیر کرگزر جاتے ، اس کو اٹھاکر ٹھیک کرنے کی کوشش کی بجائے یہ سوچتے کہ ہم اپنے کپڑے گندے کریں گے اورہماری سیاسست قربان ہو جائے گی یا سسکتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کی کوشش کرتے اور اسے ہسپتال میں لے جا کر دوباوہ پائوں پر کھڑا کریں ۔
ہمیں اس کا غم نہیں ہے کہ اس عمل میں ہمارے صاف کپڑوں پر چھینٹے پڑے ہیں بلکہ ہمیں اطمینان ہے ہم جس راستے پر چل پڑے ہیں سال دو سال میں جس طرح ہم نے 2013میں ٹرن ارائونڈ کیا تھا دوبارہ ٹرن ارائونڈ کریں گے ہم دوبارہ فاسٹ ٹریک پر چلیں گے، لیکن ہم اس ٹرن ارائونڈ کے اندر اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہے جو بار بار اس بحران میں پھینکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی وہاں استحکام کے بعد جو دوسرا کام کیا گیا انہوںنے اپنی برآمدات کی استعداد بڑھا ئی ہے ،دنیا میں ہر وہ ملک جو ہم سے پیچھے تھا وہ ایکسپورٹ بڑھا کر ہم سے آگے نکل گیا ہے اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ 1960میں ہماری برآمدات 200ملین ڈالر پر تھیں اورآج 32ارب ڈاپر پر آئے ہیں سائوتھ کوریا کی اس وقت 100ملین ڈالر تھیں لیکن وہ 550ارب ڈالر سے اوپر چلا گیا ہے ،
ملیائیشیاء تھائی لینڈ سب نے اپنی برآمدات بڑھائی ہیں ۔انہوںنے کہا کہ پاکستان کے پاس ہے کہ اپنے زرعی شعبے پر توجہ مرکوز کرے اسی سے ڈویلپمنٹ اور ہماری بقاء ہے،دنیا میں آبادی بڑھ رہی ہے اور ایک انداز کے مطابق 2050ء تک اس میں مزید 2ارب لوگ زیادہ آ جائیں گے،ان کو خوراک بھی چاہیے وہ کہاں سے آئے گا ،ہمیں لائیو سٹاک انڈسٹری کو ترقی دینی ہے ، اپنی زراعت کی پیداوار کو بڑھانا ہے ، پاکستان کے بارے میں اندازہ ہے کہ 2050ء تک ہماری آبادی 33کروڑ ہو جائے گا اس کے لئے خوراک کی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی ۔