بھارت

بھارت اس سال کے وسط میں دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا

بیجنگ(گلف آن لائن)بھارت اس سال کے وسط میں دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا، اس وقت،چین میں تقریباً 900 ملین محنت کش ہیں، ہر سال 15 ملین سے زیادہ نئے محنت کشوں کا اضافہ ہوتا ہے،چین میں 240 ملین سے زیادہ افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے،چینی میڈیا کے مطابق بھارت کی آبادی کا چین کی آبادی سے ممکنہ تجاوز ، مغرب کا اس موضوع پر دوبارہ کھیل

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ نے “2023 ورلڈ پاپولیشن اسٹیٹس رپورٹ” جاری کی ، جس میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بھارت اس سال کے وسط میں چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ یہ آبادی کی ترقی کے قانون کا نتیجہ ہے، لیکن مغربی میڈیا کی رپورٹ کا ذیلی متن یہ ہے کہ چین کی ترقی بڑی مشکل میں مبتلا ہو گئ ہے.

حالیہ برسوں میں آبادی کی پالیسی سے لے کر عمر رسیدہ افراد کی آبادی میں اضافے تک، پھر پیدائشی آبادی میں کمی تک مغربی میڈیا بار بار نئے موضوعات ڈھونڈنے میں مصروف رہاہے اور ان کا مقصد اس طرح کے بیانیے کی منطق تیار کرنا ہےکہ اگر “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” غائب ہو گیا تو چین زوال پذیر ہو جائے گا، اور عالمی معیشت اس سے متاثر ہوگی۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا ہے؟ چین نے زبردست ترقی کی ہے اور بڑی آبادی کے ساتھ پائیدار اور مستحکم معاشی ترقی کا معجزہ پیدا کیا ہے۔

پیدائشی آبادی میں کمی اور بچے پیدا کرنے کی خواہش میں کمی دنیا کو درپیش عام مسائل ہیں۔ اس کا معاشی ترقی کے مرحلے، لوگوں کی بیداری اور دیگر سماجی و اقتصادی عوامل سے گہرا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر، مغربی ترقی یافتہ ممالک کو عام طور پر مزدوروں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اس حوالے سے مغربی میڈیا یہ کیوں نہیں کہتا کہ ‘ڈیموگرافک نقصانات معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں’؟ کیا یہ “دوہرے معیار” کا ایک اور کھیل نہیں ہے؟

آبادی میں اضافہ کسی ملک کی ترقی کا فائدہ اور بھاری بوجھ دونوں ہوسکتا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں بھارت کی ‘آبادی میں اضافے’ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر لوگ تعلیم یافتہ اور صحت مند نہیں ہوں گے تو نہ تو خاندان اور نہ ہی ملک خوش رہے گا۔ اسی طرح چین کے “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” کو دیکھنے کے لئے ،ہمیں مجموعی تعداد اور اس سے بھی زیادہ اہم معیار کو دیکھنا چاہئے۔ اس وقت،چین میں تقریباً 900 ملین محنت کش ہیں، اور ہر سال 15 ملین سے زیادہ نئے محنت کشوں کا اضافہ ہوتا ہے.

مزید اہم بات یہ ہے کہ چین میں 240 ملین سے زیادہ افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے، اور نئی لیبر فورس میں تعلیم کے سالوں کی اوسط مدت 14 سال تک پہنچ گئی ہے. یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ چین کا “ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ” غائب نہیں ہوا ہےبلکہ”ٹیلنٹ ڈیویڈنڈ” کی شکل اختیار کر رہا ہے، جو چین کی اقتصادی اپ گریڈیشن کے لئے محرک قوت بن جائے گا اور دنیا کو اس سے بھی فائدہ پہنچے گا.

اپنا تبصرہ بھیجیں