اعظم نذیر تارڑ

ثاقب نثار ، خواجہ طارق رحیم کی گفتگو انتہائی سنگین ،یہ فرمائشی گفتگو ہے کسی نہ کسی طرح سے پارلیمان اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ جائیں ‘ اعظم نذیر تارڑ

لاہور(گلف آن لائن)وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کی گفتگو انتہائی سنگین ہے ،

یہ فرمائشی گفتگو ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ماحول ایسا کر دیا جائے کہ پارلیمان اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آ جائیں اور کچھ نادان دوستوں کی وجہ سے کسی حد تک یہ ماحول بن بھی چکا ہے ،جلتی پر تیل کا کام کرنے کے لئے فرمائشیں آرہی ہیںکہ فوری طو رپر ایسی صورت نکالی جائے اور کوئی کام کیا جائے کہ حکومتی شخصیات کو توہین عدالت کے حوالے سے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے ،

توہین عدالت کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک وفاقی حکومت نے کسی عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ اس کے کوئی شواہد ہیںکہ توہین عدالت لگائی جائے ،یہ کچھ بزرگوں کی خواہش ضرور ہے عدالتی اور حکومتی معاملات کو اس سمت میںدھکیل دیا جائے اور جو تھوڑا بہت استحکام رہ گیا ہے وہ بھی کمپرو مائز جائے گا، بات چیت جاری ہے آج بدھ کے روز ایک اور بیٹھک ہے جس میں مشترکہ لائحہ عمل ہوگا وہ سامنے آ جائے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوںنے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک محمداحمد خان کے ہمراہ ماڈل ٹائون میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج کل ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ،ہیکنگ ہوتی ہے اور کیا کیا چیزیں ہیں، لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ سات پردوں میں جوبات کر رہے ہیں وہ باتیں کہیں نہ کہیں سے نکل آتی ہیں آپ ان پر پردے نہیں ڈال سکتے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کے درمیان جو گفتگو ہے میری نظر میں وہ بڑی سنگین گفتگو ہے ،یہ گفتگو ایک سینئر ترین وکیل اور سابق چیف جسٹس کے درمیان ہو رہی ہے ، اس گفتگو میں نظر آرہا ہے کہ سارے تانے بانے انہی معاملات سے جڑ رہے ہیں، یہ فرمائشی گفتگو ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے ماحول ایسا کر دیا جائے کہ پارلیمان اور سپریم کورٹ آمنے آ جائیں اور کچھ نادان دوستوں کی وجہ سے کسی حد تک یہ ماحول بن بھی چکا ہے اور جلتی پر تیل کا کام کرنے کے لئے فرمائشیں آرہی ہیں کہ فوری طو رپر ایسی صورت نکالی جائے اور کوئی کام کیا جائے کہ حکومتی شخصیات کو توہین عدالت کے حوالے سے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے ،

اس کے لئے ججمنٹ پر مشورے دئیے جارہے ہیں جو انتہائی خطرناک ٹرینڈ ہے ۔اسے عام زبان میں اس طرح کہیں گے جیسے پرچہ آئوٹ کر دیا جائے کہ سارے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے پنجاب کے سابقہ وزیر اعلیٰ کہہ رہے تھے یہ معاملہ فلاں فلاں بنچ کے سامنے جائے گا اور وہ اپنے وکلاء سے کہہ رہے تھے کہ اس کو یقینی بنائیں، آگے سے یہ کہا گیا کہ یہ معاملہ ہو جائے گا اور یہ نوٹس بھی لے لیا جائے گا ، اس سے ثابت ہوگا ہے کہ مستقبل کے ایونٹس کو پری پلان کر کے ان کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے ۔

ملک کی سیاست میں عید کی تعطیلات کی وجہ سے جو توقف یا ٹھہرائو آیا تھا لیکن اب کوشش ہو رہی ہے کہ یہ آگ دوبارہ بھڑکا دی جائے ۔ انہوںنے کہا کہ 2016-17میں جس طرح یہ معاملات شروع ہوئے اور (ن) لیگ ہدف بنانے کے لئے عدالت کا کندھا استعمال کیا گیا ، اس لئے اس وقت کے چیف جسٹس کو تو دس گنا احتیاط کرنی چاہیے ، کیونکہ ان کے بارے میں لوگوں نے جس طرح کی گفتگو کی کہ کس طرح اس وقت عدالت متحرک تھی ،

ان دو ڈھائی سالوں میں انتہائی متنازعہ فیصلے ہوئے ان کو سامنے رکھا جائے تو انہیں تو بہت زیادہ احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے ، لوگوں کے خدشات تھے کہ وہ ایک فکسڈ معاملہ تھا اور ان کے اب کے اقدامات سے ان سب باتوں کو تقویت ملتی ہے ۔ خواجہ طارق رحیم اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے درمیان گفتگو یہ بتا رہی ہے کہ ہمیں یہ کر لینا چاہیے کہ ہمیں توہین عدالت کے لئے جانا چاہیے اور ایک ججممنٹ کا حوالہ دیا جارہا ہے کہ اس کے ذریعے راستے نکلیں گے یہ انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آئین او رقانون کی بالا دستی کے لئے ضروری بات ہے کہ معاملات شفافیت کے ساتھ ہونے چاہئیں، اداروں پر لوگوں کا اعتماد ہونا چاہیے ،خاص طور پر عدلیہ کا جو ادارہ ہے چاہے وہ ماتحت عدلیہ ہے ہائیکورٹس ہوں یا سب سے بڑی عدالت ہے لوگوں کااعتماد سب سے بڑی بنیاد ہے ، ان اداروں کی عزت و تکریم ایک بات سے ہو گی کہ لوگوں کا ان ادارو پر اعتماد ہے ، اس لئے یہ کہا جاتا ہے کہ انصاف ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا انصاف ہوتا ہے نظر آنا چاہیے ۔

لیکن اب تک جو ایونٹس ہوئے ہیں وہ سب کے سامنے ہے ،اس میں پارلیمان کی بے توقیری نظر آرہی ہے،آئین نے پارلیمان کو مکمل اختیار دے رکھا ہے قانون سازی اس کا اختیار ہے ،سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کو دونوں ایوانوں نے پاس کیا اور اس میں ایک بھی ایسی کوئی شق نہیں تھی جس کے بارے میں بارز ایسوسی ایشوسی ایشنز اور بار کونسلز نے مطالبہ نہیں کر رکھا تھا، اس کے ذریعے عدلیہ کی خود مختاری اور آزادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور عدالت کے اختیار پر کوئی آنچ بھی نہیں آنے دی گئی ۔ عدالت کے اندر سے ون مین شو کی آوازیں آئی تھیں ان کو زائل کرنے کے لئے قانون سازی کی گئی ، تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک قانون کے نفاذ سے پہلے حکم جاری کر دیا گیا کہ اس پر عملدرآمد نہ کیا جائے ۔

ان باتوں کو ختم کرنے کے لئے زائل کرنے کے لئے معاملات میں شفافیت ہونی چاہیے اور جو چیزیں پس پردہ ہو رہی ہیں ان کا کورٹ پروسیڈنگ میں کسی طرح کا شائبہ دور کا بھی نہیں آنا چاہیے ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آڈیو میں یہ سنا گیا ہے کہ توہین عدالت دائر کر دی جائے اور قابو کر لیا جائے ، جس طرح کی باتیں سنی جارہی ہیں اس میں ادارے پر اعتماد کہاں جائے گا ، اگر یہ تاثر دیا جائے گا کہ فکسڈ معاملے کے طو رپر لیا جارہا ہے اور کسی کی خواہش ہے تو یہ ادارے کے لئے بہت بڑا امتحان ہے اس لئے فیصلوں اور ایکشن سے یقینی بنائے جو جال بنے جارہے ہیں ان کی اس نظام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

انہوںنے کہا کہ پارلیمان کا کام قانون بنانا ہے اور پارلیمان نے جن کے لئے قانون بنایا گیا ہے اس پر عمل کرنا ان کی آئینی ذمہ داری ہے ، پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے جو قانون پاس کیا گیا ہے وہ رائج الوقت قانون ہے ، ججز نے آئین کے تحت حلف لیا ہے کہ وہ آئین کی بالا دستی کے لئے آئین کے لئے تحفظ کے لئے کام کریں ۔

انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن ابھی تک وفاقی حکومت نے کسی عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ اس کے کوئی شواہد ہیںکہ توہین عدالت لگائی جائے ،یہ کچھ بزرگوں کی خواہش ضرور ہے عدالتی اور حکومتی معاملات کو اس سمت میںدھکیل دیا جائے اور جو تھوڑا بہت استحکام رہ گیا ہے وہ بھی کمپرو مائز جائے گا، ملک خواہشوں پر نہیں چلتے وہ قانون او رنظام کے تحت چلتے ہیں اور پاکستان میں اس کی ایک انچ کی بھی گنجائش نہیں ۔

اعظم نذیر تاڑ نے کہا کہ وزیر اعظم ہائوس کی بھی آڈیوز لیک ہوئیں، اس پر کمیٹی بنی لیکن جب یہ معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں بہت سے جواز کے تحت یہ رک جاتے ہیں ، میں نے آج بھی کہا ہے کہ آئندہ جب کابینہ کی میٹنگ ہو تو اس میں اس کو زیر بحث آنا چاہیے ،فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے اور اگر یہ باتیں درست ہیں تو ان پر ایکشن ہونا چاہیے اور روٹ کاز پر بھی جانا چاہیے ، اس کی لیکج کہاں سے ہو رہی ہے ۔انہوںنے کہا کہ یہ پاکستان کا المیہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہ ہو رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 90روز میں انتخابات کرانا وزیراعلیٰ کا اختیار نہیں ، یہ اختیار الیکشن کمیشن کا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب اسمبلیوں کی تحلیل کا معاملے عدالت میں گیا تو سب سے پہلے بنیادی نقطہ یہی تھاکہ کہیں یہ اقدام کسی ایک شخص کی اناء کی تسکین کے لئے تو نہیں کیا گیا ، کیا اسمبلی آئین و قانون کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے توڑی گئی بجائے اس کے ان بنیادی نکات کا جواب دیا جاتا بنچ ہی توڑ دیا گیا ، یہ بنیادی سوال ہے جو حل ہونا چاہیے ۔

جو حالیہ آڈیو سامنے آئی ہے اس کا فرانزک ہونا چاہیے ، کسی کی خواہش ہے کہ لڑائی گہری اور سنگین ہو تاکہ کسی اور کو راستہ ملے ۔ہم سیاسی طورپر تربیت یافتہ لوگ ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوری نظام کی بقاء اس کے تسلسل میں ہے اس کو بچانے کے لئے ہم لچک بھی پیدا کرتے ہیں اور ڈائیلاگ کی بات بھی کرتے ہیں لیکن ہر چیز کی حد ہوتی ہے ۔ہمارا موقف ہے کہ عدالتی معاملات کوسیاست سے الگ رکھیں اگر سیاست میں عدالت کی غیر ضروری مدخلت ہو گی تو اس سے نظام کا نقصان ہوگا۔

عدالت اپنی عزت تکریم توقیر آئین و قانون کے مطابق اپنے ایکشن کے ذریعے کراتی ہے ،عدالت کا فریضہ ہے جو فریقین مقدمہ ہیں ان کا اس پر اعتماد ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ میں مثبت سوچ کا حامل شخص ہوں ،میرا یقین ہے کہ عوامی امنگیں جیتیں گی عوامی امنگوں کا مرکز پارلیمان ہے ۔انہوں نے کہا کہ بات چیت جاری ہے آج بدھ کے روز ایک اور بیٹھک ہے جس میں مشترکہ لائحہ عمل ہوگا وہ آپ کے سامنے ا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے مذاکرات کے حوالے سے جوموقف اپنایا وہ انتہائی میچور ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان کا اپنا موقف ہے ۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی ملک محمد احمد خان نے جو تانے بانے بنے جارہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، خواجہ طارق رحیم کی اہلیہ اور چیف جسٹس صاحب کی خوشدامن کی بات چیت میں کہا گیا کہ انہوں نے جسٹس منیب کے ساتھ ان کی میسجنگ شیئر کی اور انہوں نے زبان دانتوں کے نیچے دبانے والا ایمو جی بھیجا کہ خاموش رہیں یہ بہت بڑا الزام ہے ،

یہ خاتون محترمہ اس وکیل کی اہلیہ ہیں جنہوںنے سپریم کورٹ سے متعلق بل کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے کہ اس کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ اسی درخواست سے متعلق وہ چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار کہہ رہے ہیں اور وہ ججمنمٹ کا حوالہ دے رہے ہیں، وہ بتا رہے ہیں کہ وہ راستہ کون سا ہے جب پارلیمنٹ میں معاملہ چل رہا ہو تو عدالت کس وقت مداخلت کر سکتی ہے ۔یہ معاملہ ایکسپوز ہو رہا ہے ، سپریم کورٹ کو سکینڈلائز کیا جارہا ہے ۔

حالیہ جو آڈیو سامنے آئی ہے اس میں تو دو افراد ثاقب نثار اور خواجہ طارق رحیم کے خلاف سو موٹو لینا چاہیے ۔ججز کو کوڈ آف کنڈکٹ ہے جب اس کی خلاف ورزی ہو رہی یہ تو ہم حق بجانب ہیں کہ اس پر ان ممبران ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جائیں ،یہ وزیر قانون کا فیصلہ ہوگا وہ اس کو کیسے لے کر جاتے ہیں کیونکہ اس سے زیادہ اس کی خلاف ورزی ہو نہیں سکتی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم بر ملا کہتے ہیں یہ گٹھ جوڑ ہے جس کی ہمیں سمجھ آرہی ہے کیا ان کو سمجھ نہیں آرہی ۔عدالت کا کام تشریح کرنا ہے لیکن عدالت کا کام آئین کو ری رائٹ کرنا نہیں ہے ۔ میں تو حکومت سے کہوں گا کہ ایک اجلاس طلب کریں اس میں ان کے حق آئین کے تشریح کو تسلیم کرتے ہوئے آئین میں جو ان کی طرف سے ترمیم کی گئی ہے اس کے اوپر قانون سازی کریں اور یہ کرنی بنتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کیسے کریں گے جس میں پتہ چل گیا ہے کہ ثاقب نثار یہ کہہ رہے ہیں ، یہ ایونٹس ہیں جن کا تسلسل ہے اور میرا مصمم یقین ہے ،63اے کو ری رائٹ کیا گیا ، سپریم کورت کے اندر جو معاملات سیاسی معاملات تھے وہ ایک نہیں اس کی پوری فہرست وہاں طے کرنے کی کوشش کی گئی کیا ،یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ کوڈ آف کنڈکٹ کی صریحاًت خلاف ورزی کی گئی ، سپریم کورٹ کے ایک جج پر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں لیکن اس جج کے معاملے کو جسٹس قاضی فائز عیسی کے معاملے سے مختلف ظاہر کیا جاتا ہے ،یہ چھوٹی باتیں نہیں ہیں ، آج ہم انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے جو مالی معاملات ہیں وہ پارلیمان کا اختیار نہیں ہے ، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک براہ راست فنڈز جاری کر دے ، مالی معاملات پر ووٹنگ اراکین کا حق نہیں ۔انہوںنے کہا کہ آپ ایک شق کو آئیسولیشن میں پڑھ رہے ہیں ۔ فیکٹ فائنڈنگ کریں کہیں یہ ججز کی تعیناتی کولے کر تو نہیں کیا جارہا ،سپریم کورٹ کی اندرونی سیاست ایک گلہ کاٹنے کے لئے تو نہیں ہو رہی ،

ملک میں آئین کا بریک ڈائون نہ کریں ،وفاق میں ایک حکومت ہوئی ہے ، ایسا عمل نہ کریں جس سے عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد اٹھے ۔ 2016سے یہ دھندا چل رہاہے یہ دھندا بند کرنا ہوگا ، ہم آپ کے لئے پنجنگ بیگ ہیں ، ہمارے پاس زبان بھی ہے واقعات بھی ہے حقائق بھی ہیں ثبوت بھی ہیں ، پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ مت کریں ۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص آیا ہے جو اذیت بن کر اترا ہوا ہے ، کیا نوے روز میں انتخابات پنجاب میں ہی ہونے ہیں ، خیبر پختوانخوا ہ کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ، ایسا نہ کریں جس سے لوگوں کا انتخابی عمل سے یقین اٹھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں