قومی اسمبلی

قومی اسمبلی میں توہین پارلیمنٹ بل 2023 منظور

اسلام آباد (گلف آن لائن)قومی اسمبلی نے توہین پارلیمنٹ بل 2023 منظور کرلیا۔منگل کو اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قواعدو ضوابط و استحقاق رانا محمد قاسم نون نے توہین پارلیمنٹ بل (تحقیرمجلس شوریٰ) 2023 پیش کیا۔رانا قاسم نون نے کہاکہ توہین پارلیمنٹ کا بل بہت اہم ہے، آئندہ کسی نے اس ہاؤس کی توہین کی تو وہ سزا کا مرتکب ہوگا، ہم چار سال سے اس بل پر کام کر رہے تھے، قائمہ کمیٹی کے اراکین اور دیگر ہاؤس کے اراکین نے بھرپور ساتھ دیا۔

بل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر نے کہاکہ توہین پارلیمنٹ بل بہت اہم قانون سازی ہے جس کے لیے میں رانا قاسم نون کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، اس کی کافی عرصے سے ضرورت تھی، سرکاری افسران تو ارکان کے فون بھی نہیں سنتے، اس ایوان کی توقیر برقرار رہنی چاہیے۔وفاقی وزیر خزانہ و سینیٹر محمداسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ذریعے عوام کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے،

قیمتوں میں کمی کافائدہ عوام تک پہنچانے کے لیے ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہاکہ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ گزشتہ حکومت کی ذمہ داریوں کی درستگی کی جائے اور عوام کو ریلیف دیاجائے، آج سے نئی قیمتوں کا تعین کیاگیا ہے اور قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، ڈیزل کی قیمت میں 30 روپے اور پٹرول کی قیمت میں 12 روپے کی کمی گئی ہے، اس طرح کسانوں کی سہولت کے لئے لائٹ ڈیزل کی قیمت میں بھی کمی کی گئی ہے۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ ڈیزل کی قیمت میں تقریباً 11 فیصد کمی ہوئی ہے، ٹرانسپورٹرز کو کرایوں میں کمی کرناچاہیے، صوبائی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، اس کا فائدہ لوگوں تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اجلاس کے دور ان جماعت اسلامی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے بل میں ترمیم پیش کردی اور کہاکہ سود اور اسلامی شقوں کے خلاف کوئی کہیں حکم امتناعی نہ لے سکے یہ ترمیم بھی اس بل میں شامل کی جائے ۔ انہوںنے کہاکہ سود کے خاتمے اور اسلامی شقوں پر قانون پر عمل کرانا بھی پارلیمان کی ہی عزت ہے۔

انہوںنے کہاکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے آئین کے آرٹیکل 38کے مطابق سود کے خاتمے کا وعدہ کیا گیا ہے اس پر حکم امتناعی چلتے رہیں اور اس ایوان کی توہین نہ ہورہی ہو ۔ انہوںنے کہاکہ کیا آئین کے آرٹیکل 38کے توہین نہیں ہورہی ؟۔مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہاکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک رکن کی توہین پر سزا دی جائے اور سود کے خاتمے اور اسلامی شقوں کی توہین کو چھوڑ دیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ حکومت نے سود کے حق میں دائر پٹیشن واپس لے لی مگر دیگر سترہ درخواستیں زیر التوا ہیں ۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہاکہ ہم نے سود کے حق میں دائر درخواستیں تو واپس لے لی ہیں مگر نجی درخواست گزاروں کو مجبور نہیں کرسکتے ۔

انہوںنے کہاکہ ہم انہیں بھی قائل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ وفاقی وزیر نے کہاکہ ہم اسلامی شقوں اور سود کے حوالے سے سمجھوتے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہاکہ جو درخواستیں واپس نہیں لے رہے ان کو ایک ماہ کا وقت دیں اور این او سی کینسل کردیں آئین پر عمل ہوجائے گا ۔وزیر خزانہ اسحق ڈار نے مولانا عبدالاکبر چترالی کے اس سوال کا جواب نہیں دیا ۔چیئرمین قائمہ کمیٹی قواعدو ضوابط رانا قاسم نون نے کہاکہ آپ الگ سے ان ایشوز پر بل لے آئیں ہم سپورٹ کریں گے ۔

مولانا عبدالاکبر چترالی کے ترمیم نظر انداز کردی گئی ۔بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے بل کی یکے بعد دیگرے تمام شقوں کی ایوان سے منظوری حاصل کی، بل میں وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے ترمیم پیش کی جسے بل میں شامل کر لیا گیا، بعدازاں قومی اسمبلی نے بل کی منظوری دے دی۔خیال رہے کہ توہین پارلیمنٹ بل قائمہ کمیٹی سے مسودے کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔یہ بل رواں ماہ 9 مئی کو پارلیمنٹ میں متعارف کروایا گیا تھا جسے اسپیکر نے بل قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو مزید غور کے لیے بھیج دیا تھا، بعدازاں 15 مئی کو قائمہ کمیٹی نے توہین پارلیمنٹ بل 2023 کی منظوری دے دی تھی۔

واضح رہے کہ مذکورہ بل قومی اسمبلی کے بعد اب منظوری کے لیے سینیٹ کو بھیجا جائے گا۔بل کے مطابق پارلیمنٹ کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے، پارلیمانی کمیٹی توہین پارلیمان پر کسی بھی ریاستی یا حکومتی عہدیدار کو طلب کر سکے گی۔بل میں پارلیمنٹ کی توہین کے مرتکب ملزم کو 6 ماہ قید ،10 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، توہین پارلیمنٹ کی سزا کے خلاف 30 روز کے اندر اپیل کا حق ہوگا، سزا کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، اپیل صرف متعلقہ کمیٹی کے سامنے ہی ہو سکے گی۔بل کے مطابق 24 رکنی پارلیمانی کنٹمپٹ کمیٹی توہین پارلیمنٹ کیسز کی تحقیقات کرے گی، کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کے مساوی اراکین کو شامل کیا جائے گا۔

کنٹمپٹ کمیٹی شکایات کی رپورٹ پر اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کو سزا تجویز کرے گی، اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ متعلقہ فرد پر سزا کے تعین کا اعلان کرسکیں گے۔بل کے مطابق انسداد تحقیر کمیٹی کے قیام کی منظوری اسپیکر قومی اسمبلی دیں گے جوکہ 5 اراکین پر مشتمل ہو گی، قومی اسمبلی سے 3 اور سینیٹ سے 2 اراکین کمیٹی میں شامل ہوں گے۔کمیٹی ارکین میں ایک نام اسپیکر اور ایک ایک نام وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر دین گے، سینیٹ سے ایک کمیٹی رکن اپوزیشن اور ایک حکومت سے ہوگا، چیئرمین و چیئرپرسن کا انتخاب کمیٹی خود کرے گی۔انسداد تحقیر کمیٹی کے پاس سول کورٹ کا اختیار ہوگا، کمیٹی عدم پیشی پر کسی بھی شخص کے سمن اور وارنٹ گرفتاری جاری کر سکے گی، وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کی منظوری ضروری ہوگی۔

اجلاس کے دور ان وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہاکہ پی اے سی میں سال پہلے ایف بی آر کی جانب سے اعدادوشمار دئیے گئے،ایف بی آر کے اعدادوشمار کے مطابق دو ہزار ارب روپے سے زائد کیسز زیر التواء ہیں۔خواجہ آصف نے کہاکہ مسئلہ اس قدر طول پکڑتا ہے کہ وصولیوں والوں کے برے حالات ہیں ،چار لاکھ کیسز اس وقت تک زیر التواء ہیں۔وفاقی وزیر بے محکمہ میاں جاوید لطیف نے کہاکہ بتایا جائے کہ کیا تمام ادارے اے پولیٹیکل ہوگئے ہیں ،آج کہا جارہا ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ایجنسیاں ملوث تھیں ،گرفتاری کی صورت میں ردعمل کی ایک سال سے تیاری کی جارہی تھی ۔ انہوںنے کہاکہ جو نقصان ہوا ہے وہ ان کی توقع سے کم ہوا ہے ،آج ایک پیج پھٹ جانے کے باوجود اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے ۔

انہوںنے کہاکہ آج اگر ایک ادارہ اے پولیٹیکل ہوگیا ہے تو دوسرا ادارہ اے پولیٹیکل کیوں نہیں ہورہا ہے ؟،کیا کبھی ہوا کہ ڈاکوئوں کا سربراہ خود ہر جگہ ڈاکہ مارنے جاتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے تو مجرم ٹھہرے حملہ کروانے والا کیسے مجرم نہیں ہوگا ؟خصوصی عدالتیں نومئی واقعات کا ٹرائل کریں ۔ انہوںنے کہاکہ مجھے پوچھا جاتا ہے کہ نوازشریف واپس کیوں نہیں آرہا ۔ انہوںنے کہاکہ میں پوچھتا ہوں کہ عمر عطا بندیال اور چھوٹی عدالتوں کے فیصلوں کے بعد بھی نوازشریف کیسے واپس آجائیں ۔ انہوںنے کہاکہ کیا اب بھی نوازشریف کے واپس آنے کا سوال بنتا ہے ،آج اسے عمارات جلانے کے بعد بھی کہا جاتا ہے جائو،الطاف حسین کو کس نے پالا تھا سب کو معلوم ہے ۔

انہوںنے کہاکہ الطاف حسین نے ایک بات کی تھی پھر جو اس کی پارٹی کی اینٹ سے اینٹ بجی تھی سب نے دیکھا ۔ انہوںنے کہاکہ بتایا جائے فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو پھر کیوں چھوڑا جارہا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ آج 72 سالہ مرشد کو سفید چادروں میں لپیٹ کر عدالت لے جایا ہے تو باقی عورتیں نہیں تھیں ۔ انہوںنے کہاکہ یہ آج بھی کچھ قوتوں کا آلہ کار ہے جسے یہ رعایات مل رہی ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ یہ دہشتگرد ہے اس سے مذاکرات کسی صورت نہیں ہونے چاہئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں