انتونیو گو تریس

سیکیورٹی کونسل میں اصلاحات کرنے کا وقت آگیا ہے، سربراہ اقوام متحدہ

ہیروشیما(گلف آن لائن )اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ سلامتی کونسل اور بریٹن ووڈز میں آج کی دنیا کی حقیقتوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اصلاحات کیے جائیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جاپان کے شہر ہیروشیما میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ااقوام متحدہ کیسیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ دونوں اداروں نے 1945 کے طاقت کے تعلقات کی عکاسی کی اور اب ان میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ عالمی اقتصادی نظام فرسودہ، غیر فعال اور غیر منصفانہ ہو چکا ہے، عالمی وبا کورونا وائرس اور یوکرین پر روسی حملے کے معاشی عدم استحکام کے پیش نظر یہ عالمی حفاظتی نظام کے اپنے بنیادی کام کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت سیکیورٹی کونسل کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی امن اور سیکیورٹی کو برقرار رکھنا ہے، سیکیورٹی کونسل پابندیاں عائد کرنے یا کچھ کیسز کو حل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔سیکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ہیں جن میں چین، فرانس، روسی فیڈریشن، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں جبکہ 10 غیرمستقل اراکین ہیں اور ہر رکن کے پاس ایک ووٹ ہوتا ہے۔

انتونیو گوتریس نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے کس طرح محسوس کیا کہ جی 7 سربراہی اجلاس میں ترقی پذیر ممالک میں یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ فرسودہ اداروں کی اصلاح یا گلوبل ساتھ کی مایوسیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)نے جنوری میں اپنے ورلڈ اکنامک آٹ لک میں کہا تھا کہ اس سال اور آئندہ سال تک بھارت کی معیشت 6 فیصد سے بھی زیادہ ترقی کی راہ پر ہوگی۔آئی ایم ایف کے چیف اکنامسٹ اور ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر پیئر اولیور گورنچاس نے کہا کہ چین اور بھارت سال 2023 میں عالمی معیشت میں اپنا 50 فیصد حصہ ڈالیں گے۔

آئی ایم ایف کے مطابق جی 7 معیشتیں بھی گزشتہ 30 برس میں سکڑ گئی ہیں جہاں ان معیشتوں کی عالمی جی ڈی پی 29.9 فیصد ہے جبکہ 1980 میں یہ شرح 50.7 فیصد تھی۔انتونیو گوتریس نے کہا کہ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ ہیروشیما میں ہونے والی بات چیت کے کیا اثرات ہوتے ہیں، جی 7 اراکین دنیا کی ابھرتی ہوئی اہم ترین معیشتوں سے بات چیت کرنے میں کامیاب رہے۔جی 7 کے میزبان جاپان نے گلوبل ساتھ سے کچھ ممالک کو ہیروشیما میں مدعو کیا تھا جن میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، برازیل کے صدر لوئز لولا ڈی سلوا اور انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو شامل تھے۔

خیال رہے کہ بریٹن ووڈز مانیٹری نظام 1944 کے معاہدے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا جس میں یہ طے ہوا تھا کہ سونے کو عالمی معیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کرنسی کی مقررہ شرح تبادلہ بنائی جا سکتی ہے۔اس سسٹم نے 44 ممالک کے درمیان تجارتی نظام کو ریگولیٹ کیا اور یہ 1945 سے 1973 تک جاری رہا، تاہم یہ سسٹم اس وقت ناکام ہوا جب امریکی ڈالر قدر برقرار رکھنے میں ناکام ہوگیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں