قومی اسمبلی

قومی اسمبلی ،موسمیاتی تبدیلیوں بارے پاکستانی کوششوں میں عالمی برادری کی معاونت کو خراج تحسین پیش کرنے کی متفقہ قرارداد منظور

اسلام آباد (گلف آن لائن)قومی اسمبلی نے موسمیاتی تبدیلیوں بارے پاکستانی کوششوں میں عالمی برادری کی معاونت کو خراج تحسین پیش کرنے کی متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ ہفتہ کو قومی اسمبلی میں وزیر مملکت اور وزیر اعظم کی معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے قراداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان بین الاقوامی تنظیموں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور موسمیاتی تبدیلیوں کیخلاف پاکستان کی کوششوں کے لیے عالمی برادری کے تعاون اور موسمیاتی آفات سے متاثرہ کمزور طبقات کی بحالی میں ان کی امداد کو تسلیم کرتا ہے، ایوان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے عالمی تعاون کی فوری ضرورت کو تسلیم کرتا ہے۔

یہ ایوان محسوس کرتا ہے کہ شدید موسمی واقعات، جیسے کہ 2022کے سیلاب نے خاص طور پر کمزور طبقات کو شدید متاثر کیا ہے، موجودہ موسمیاتی مسائل میں اضافہ کیا ہے جس سے خواتین اور بچوں کو نفسیاتی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے ، یہ ایوان آب و ہوا سے متعلق بحرانوں کے پیش نظر معاشرے کے ان طبقات کے تحفظ اور ترقی کیلئے اجتماعی کاوشوں کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ یہ ایوان اسلامک ریلیف ورلڈ وائیڈ، اقوام متحدہ (یو این) کے پاکستان کے موسمیاتی کاوشوں کو آگے بڑھانے میں ان کے اہم کردار کو سراہتا ہے۔ ان کے اقدامات نے موسمیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ڈیزاسٹر رسک مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے اور پائیدار معیشت کو فروغ دینے میں مدد کی ہے،یہ ایوان حکومت پاکستان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرے، ان کی مہارت اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، ملک کی موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو کم کرنے کی پالیسیوں اور قدرتی آفات کے خطرے میں کمی لانے کی حکمت عملیوں کو بہتر بنائے۔

یہ ایوان بین الاقوامی تنظیموں سے بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معلومات کے تبادلوں کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں۔ قومی اسمبلی نے قرارداد کی اتفاق رائے سے منظوری دے دی۔اجلا س کے دور ان مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے نکتہ ہائے اعتراض پرمختلف ایشوز اٹھائے اوران کے حل کیلئے اقدامات کامطالبہ کیا۔رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبرچترالی نے نکتہ اعتراض پر کہاکہ حالیہ مردم شماری سکولوں کے اساتذہ سے کرائی گئی ہے، ابھی تک محکمہ نے ان کو معاوضہ جات ادانہیں کئے ہیں، میرامطالبہ ہے کہ اساتذہ کو مشاہیرہ اداکیا جائے، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے گریجوویٹس اوردیگرطلبا کو لیپ ٹاپ سکیم سے محروم رکھا گیاہے، ان کامطالبہ ہے کہ اس سکیم میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے طلبا کو شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت دینی مدارس میں 40لاکھ طلبا کو تعلیم دی جارہی ہے حکومت کی جانب سے اس طرح کی سکیموں میں دینی مدارس کو بھی شامل کیاجائے۔انہوںنے کہاکہ خیبرپختونخوا کے پوسٹل سروس میں بدعنوانی ہوئی ہے مگر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔انہوںنے کہاکہ میرا اسعد محمود سے مطالبہ ہے کہ وہ اس پرایکشن لیں۔ سپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری کو معاملے کانوٹس لینے کی ہدایت کی۔ مسلم لیگ( ن )کے رکن قومی اسمبلی رائو محمداجمل خان نے نے کہاکہ چھوٹے کسانوں سے زرعی قرضہ پر دوفیصدٹیکس واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ڈیزل، کھاد اوربجلی پربجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیاہے، تینوں اشیا زراعت کے حوالہ سے اہم ہیں، زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے مگر اس شعبہ پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

انہوں نے کہاکہ بیاس کے کنارے موٹروے بنائی جارہی ہے، ابھی تک کوئی نقشہ موجودنہیں ہے، اس حوالہ سے تفصیلات فراہم کی جائے۔دیہاتوں میں ابھی سے چارگھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہوئی ہے۔ خالدحسین مگسی نے کہاکہ بلوچستان کے حوالہ سے خصوصی کمیٹی کااجلاس گزشتہ روز بھی ہواتھا، بلوچستان میں مزید گیس نکلی ہے اورابھی اس کیلئے پائپ لائن کا منصوبہ ہے، میری درخواست ہے کہ یہ گیس مقامی آبادی کو فراہم کی جائے۔سپیکر نے کہاکہ 18 ویں ترمیم میں یہ معاملات طے شدہ ہے، انہوں نے کہاکہ پارلیمانی امورکے وزیراس معاملہ کو متعلقہ وزارت کے ساتھ اٹھائیگا۔زہرہ ودود فاطمی نے کہاکہ 2013 میں جب وہ رکن قومی اسمبلی بنی توانہیں اپارٹمنٹ دیا گیا جو 2018 میں بھی الاٹ ہوا،میرا اپارٹمنٹ میرے علم میں لائے بغیر لاجز سے گورنمنٹ ہاسٹل منتقل کردیا گیا ہے۔

میں نے گورنمنٹ ہاسٹل سرینڈرکردیا ہے مگر لاجز میں ابھی تک انہیں رہائش فراہم نہیں کی گئی ہے۔سپیکرنے کہاکہ وہ اس حوالہ سے معلومات حاصل کرکے آگاہ کریں گے۔سیدحسین طارق نے کہاکہ سندھ میں تیل وگیس کے فیلڈز ہیں، سالوں سے گیس نکالی جارہی ہے مگر ملحقہ علاقوں کوگیس فراہم نہیں کی جارہی، انہوں نے کہاکہ گزشتہ سیلاب سے زرعی زمینوں کونقصان ہواہے، اس صورتحال میں کسان بروقت قرضے ادا نہیں کرسکے، میری درخواست ہے کہ کسانوں کوقرضوں میں ریلیف فراہم کی جائے۔ میرعامرعلی مگسی نے کہاکہ ضلع قمبرشہدادکوٹ میں دوگیس فیلڈز ہیں،جہاں سے پورے پاکستان کوگیس فراہم کی جارہی ہے مگر ہمارے علاقوں کو گیس نہیں مل رہی۔ ہمارامطالبہ ہے کہ مقامی آبادی کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ میرمنورعلی تالپورنے کہاکہ دریائے سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے جس سے چاول کی فصلوں کو نقصان کا اندیشہ ہے۔

سپیکر کو اس پررولنگ دینا چاہئیے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ میں سیلاب سے دوملین گھرتباہ ہوگئے ہیں مگر ابھی تک وفاقی حکومت کی جانب سے اس حوالہ سے فنڈز فراہم نہیں کئے گئے۔سیڈا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، سپیکر سیڈاکوختم کرنے کی رولنگ دیں۔انہوں نے کہاکہ اندرون سندھ میں 16،16 گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔اس کا نوٹس لیا جائے۔سپیکر نے کہاکہ ارسا پانی کی منصفانہ تقسیم کا ادارہ ہے اوراسے اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے اداکرنا چاہیے۔وفاقی وزیرآبی وسائل سید خورشید احمد شاہ نے کہاکہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہماری ناکامی ہے، صرف سندھ میں 20 فیصدلائن لاسز ہیں، اس پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے، 66 کلوواٹ کے سندھ میں 5 گرڈ سٹیشن ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت روہری اورنالہ کینال فل جارہے ہیں،زیریں اور دوردراز کے علاقوں میں پانی کی کمی ہے۔ سکھربیراج سے پانی مکمل استعداد کے مطابق چھوڑاجارہاہے، بلوچستان کو استعداد کے مطابق پانی فراہم کیا جارہاہے۔

انہوں نے کہاکہ کھیرتھر میں مسائل موجود ہیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ پانی موجود ہے اورمزیدپانی بھی آرہاہے۔وفاقی وزیرتخفیف غربت ڈاکٹرشازیہ مری نے کہاہے کہ قدرتی وسائل کے استعمال کے حوالہ سے ملکی آئین واضح ہے۔ مختلف اراکین کی جانب سے نکتہ اعتراض پرگیس کے کنووں سے مقامی آبادی کو گیس کی فراہمی سے متعلق معاملہ پراظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ گیس کامعاملہ اہمیت کاحامل ہے، آئین اس حوالہ سے واضح ہے۔ آئین کے مطابق گیس پرپہلا حق مقامی آبادی کاہے، سندھ سے پورے ملک کو گیس فراہم ہورہی ہے، سندھ کے متعلقہ اضلاع کو پہلے گیس ملنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ جس صوبہ یا علاقہ میں گیس کا ویل ہیڈ ہے اس پرپہلا حق اس حلقہ کے عوام کا ہے۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے امورنوجواناں شزہ فاطمہ خواجہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ملک کی 70 فیصد آبادی نوجوان ہے جو پاکستان کامستقبل ہی نہیں بلکہ حال بھی ہے، یہ وہ بچے اوربچیاں ہیں جن کو اگر ہم ایک اچھے انداز میں روزگارمہیا کر دیں اورانہیں باہنر کردیں تو ملک کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا،اگر ہم نے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا تویہ ہمارے لئے مشکلات پیداکرے گا۔انہوں نے کہاکہ 2009میں یوتھ کی وزارت صوبوں کے پاس چلی گئی، 2013 میں محمدنواز شریف نے تاریخ کاپہلا یوتھ پیکج دیا اور پی ایم آفس کے اندر ایک دفتر قائم کیا گیا۔

انہوں نے کہاکہ آج کے نوجوانوں کویہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ 2013 میں 18 گھنٹے لوڈشیدنگ ہورہی تھی، ملک میں دہشت گردی تھی، اس وقت کے 8 سال کے بچے جو آج جوان ہیں کو یادرکھنا چاہئیے کہ مسلم لیگ ن کے ان 5 سالوں میں پاکستان نے ان مسائل کو حل کردیاتھا۔2014 میں دھرنے کی شکل میں دھرنا لگایاگیا اورملک میں نفرت اورانتشارکی سیاست کاآغاز کیاگیا۔کنٹینرز پر ملک کی ثقافت اوربزرگوں کا مذاق اڑایاگیا، آج کاسیاسی ماحول اسی نفرت کا شاخسانہ ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت پاکستان اورحکومت پنجاب نے 2013 سے لیکر2018 تک مشترکہ طورپر 10لاکھ طلبا وطالبات کو لیپ ٹاپ دئیے تھے، انہی لیپ ٹاپ سے ان بچوں نے کوویڈ میں نہ صرف تعلیم حاصل کی بلکہ روزی بھی کمانے کے قابل ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ 2018 میں ہم نے فاشزم کانیا دوردیکھا، سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالاگیا، انتقامی سیاست کوفروغ دیا گیا، نوجوانوں کے ذہنوں میں سیاستدانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی، اس مقصد کیلئے سوشل میڈیا کا منظم طریقے سے استعمال کیاگیا، پاکستان کوباقاعدہ طورپر نفرتوں میں دھکیلا گیا۔ یوتھ کے نعرے لگانے والے بتائے کہ انہوں نے چارسالوں میں نوجوانوں کیلئے کیا کیا۔ سرکاری خرچہ پرلوگوں کوبھرتی کرکے پراپیگنڈہ کیاگیا اورنفرت پھیلائی گئی، یہ سیاسی مخالفین کو ٹارچر کرکے فخر کرتے تھے۔

انہوں نے کہاکہ ان اقدامات سے پاکستان کرپشن میں 117سے 140 پرچلاگیا، پاکستان کے وزیراعظم کو میڈیا پری ڈیٹرکا ٹائٹل ملا، ان واقعات کا عروج قوم نے 9 مئی کی شکل میں دیکھا، پی ٹی وی پرحملوں سے شروع ہونے والا سلسلہ جی ایچ کیو اورفوجی تنصیبات پرحملوں پر منتج ہوا۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب نے مل کرسول وارکو ناکام بنادیا ہے، ہم نے ان بچوں کوسیدھے راستے پرلانا ہے، ہمارے نوجوانوں کو ملک کا آئین ضرور پڑھنا چاہئیے۔ پرامن احتجاج سب کا حق ہے مگر قانون توڑنا اورجارحیت کی اجازت نہیں ہے، نوجوانوں کواپنی ذمہ داریاں سمجھنا ہوگی۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم شہباز شریف نے نوجوانوں کیلئے پروگرام کودوبارہ شروع کردیا ہے، اس سال ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کئے جائیں گے، نوجوانوں کیلئے مختلف کھیلوں کے ٹرائلز شروع کئے گئے ہیں، نوجوانوں کو 30 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے گئے ہیں۔سکل ڈولپمنٹ میں 60ہزار نوجوانون کوجبکہ روایتی شعبوں میں 40 ہزار نوجوانوں کو تربیت فراہم کی جارہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں