بیجنگ (گلف آن لائن)امریکہ کی جانب سے چین کو چپ برآمد کرنے کی پابندیوں میں ممکنہ اضافے کے ردعمل میں امریکہ میں چین کے سفیر شے فنگ نے حال ہی میں اسپین سیکیورٹی فورم میں شرکت کے دوران کہا کہ چین تجارتی جنگ یا ٹیکنالوجی کی جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر امریکہ نے چین کی چپ انڈسٹری پر مزید پابندیاں عائد کیں تو چین اس کا جواب ضرور دے گا۔ شے فنگ نے نشاندہی کی کہ چین مسابقت سے خوفزدہ یا گریز نہیں کرتا ہے ، لیکن امریکہ کی نام نہاد مسابقت واضح طور پر غیر منصفانہ ہے۔
منگل کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی پر امریکی دباؤ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ٹرمپ دور میں ، امریکہ نے قومی سلامتی کے بہانے چین کی زیڈ ٹی ای کمپنی کی برآمدات پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس کے بعد امریکہ کا اگلا ہدف چین کی ہواوے کمپنی تھی ، نہ صرف ہواوے کی امریکی چپس اور سافٹ ویئر کے استعمال کو محدود کیا گیا بلکہ اسے عالمی مارکیٹ سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کی گئی۔ گزشتہ سال چپ اینڈ سائنس ایکٹ 2022 کے نفاذ کے بعد سے چین کی ٹیکنالوجی پر امریکی دباؤ کو تجارتی میدان سے قومی حکمت عملی کی سطح تک بڑھا دیا گیا ہے۔ چپس اور سافٹ ویئر کو محدود کرنے کی بنیاد پر امریکہ نے اتحادیوں پر دباؤ ڈال کر اہم خام مال اور ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ چین کے سیمی کنڈکٹر آلات کی خریداری کو محدود کیا جاسکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت امریکہ چینی کمپنیوں کو مصنوعی ذہانت سے لیس کلاؤڈ سروسز کی فراہمی روکنے پر بھی غور کر رہا ہے۔
چین فطری طور پر ایسے امریکی اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتا ہے جو مارکیٹ معیشت کے قوانین ، آزاد تجارت کے اصولوں،بین الاقوامی اقتصادی اور تجارتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور عالمی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری چین اور سپلائی چین کی سلامتی اور استحکام کو متاثر کرتے ہیں. نہ صرف چین اس کی مخالفت کرتا ہے بلکہ امریکی ہائی ٹیک انٹرپرائزز اور متعلقہ صنعتوں نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ امریکن سیمی کنڈکٹر انڈسٹری ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 2022 میں چین کی سیمی کنڈکٹر خریداری کا حجم 180 بلین ڈالر تھا، جو مجموعی عالمی خریداری کا ایک تہائی سے زیادہ تھا اور یہ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے. اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکی کمپنی کوالکوم کی آمدنی کا 60فیصد سے زیادہ چین سے آتا ہے۔ انٹیل کمپنی کی مجموعی فروخت میں تقریباً 25 فیصد شیئر چین کا ہے۔ این ویڈیا کی آمدنی کا پانچواں حصہ چین فراہم کرتا ہے۔ اگر امریکہ نے چینی چپس کے خلاف پابندیوں میں اضافہ کیا تو چپ کی پیداوار اور سازوسامان بنانے والے امریکی صنعتی ادارے یقیناً سخت متاثر ہوں گے۔
17 جولائی کو امریکی چپ کمپنیوں کے ایگزیکٹوز واشنگٹن میں جمع ہوئے جہاں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور بائیڈن انتظامیہ کے دیگر سینئر عہدیداروں سے ملاقات کی اور چین کو سیمی کنڈکٹر کی برآمد پر پابندی کی پالیسی پر تبادلہ خیال کیا۔ اسی دن امریکہ میں سب سے بااثر سیمی کنڈکٹر لابی گروپ یعنیٰ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری ایسوسی ایشن نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ چین کے لیے چپس کی برآمد پر مزید پابندیاں نہ لگائے۔ امریکی چپ کمپنیوں کا خیال ہے کہ اگر چپس کی برآمد کو مزید محدود کیا گیا تو امریکی چپ کمپنیوں کی فروخت مزید سکڑ جائے گی اور مستقبل میں تحقیق و ترقی کے لیے فنڈز میں کمی آئے گی۔ چین جیسی سب سے بڑی مارکیٹ کے ساتھ اگر تعلقات کو منقطع کیا گیا تو امریکی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا اور بالآخر امریکی سبقت کمزور پڑ جائے گی۔
ایک طویل عرصے سے امریکہ سمیت دنیا کے تمام ممالک نے ایک دوسرے سے سیکھنے اور گلوبلائزڈ سائنسی اور تکنیکی تخلیقات کے سلسلے میں مسلسل پیش رفت کی ہے۔ کسی بھی طرح کی ناکہ بندی موجودہ عالمی سائنسی اور تکنیکی چین کو توڑ دے گی اور عالمی سائنسی اور تکنیکی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے گی۔ امریکی چپ کمپنیوں کی لابی فطری طور پر چینی حکومت کے بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تو ہے، لیکن یہ معروضی طور پر چپ انڈسٹری کے ترقیاتی قانون کو اجاگر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، صنعت کے ان بڑے اداروں کے خدشات غیر معقول نہیں ہیں. اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چپ کی برآمد پر پابندیوں کے باعث صرف رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں آرڈرز کی کمی سے پیدا ہونے والا نقصان 35 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جس میں سےامریکہ کی تین بڑی چپ کمپنیوں کے نقصانات کا تناسب تقریباً 50 فیصد تھا اور اس میں دیگر متعلقہ شعبوں میں ہونے والے نقصانات شامل نہیں ہیں۔
تاریخی طور پر، تکنیکی ناکہ بندی کبھی بھی چین کی ترقی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے. جب بھی چین کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دبائو کا سامنا رہا ہے تو اُس نےہمیشہ تخلیقات اور خودانحصاری کا عزم دکھاکر سائنس اور ٹیکنالوجی میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ شیلڈ مشینوں سے تھیان گونگ خلائی اسٹیشن تک، کوانٹم کمپیوٹرز سے لے کر فائیو جی ایپلی کیشنز تک، اور حالیہ دنوں چینی ساختہ جوہری مقناطیسی گونج آلات کی بڑے پیمانے پر پیداوار تک، مغربی ناکہ بندیوں کے اقدامات صرف چین کے تحقیقی عمل کو تیز کریں گے اور بالآخر مغرب کی تکنیکی برتریوں کو کم کریں گے۔
امریکہ کی جانب سے مسابقت کی آڑ میں اپنی نام نہاد “تکنیکی برتری” کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا مقصد دراصل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی بالادستی برقرار رکھنا ہے۔ سائنسی ترقی کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والا یہ عمل اس کے اتحادیوں سمیت پوری صنعت کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہے ، اور لامحالہ طویل المدتی تناظر میں امریکہ کےاپنے مفادات اور اپنی سائنسی اور تکنیکی طاقت کو نقصان پہنچے گا۔