انتخابات

انتخابات 11 فروری کو کرادیں گے، الیکشن کمیشن کی سپریم کورٹ کو یقین دہانی

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ میں ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سجیل سواتی نے سپریم کو بتایا ہے کہ 11 فروری کو الیکشن کرادیں گے،حلقہ بندیوں کا عمل 29 جنوری تک مکمل کر لیا جائے گا جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے ملاقات کے بعد آج جمعرات کو ہی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے کا حکم دیتے ہوے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو تاریخ دی جائے گی اس پر عمل کرنا ہو گا جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہاہے کہ سپریم کورٹ صرف انتخابات چاہتی ہے کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے، (کل) جمعہ تک سپریم کورٹ کو فیصلے سے آگاہ کیا جائے، انتخابات کی جو بھی تاریخ رکھی جائے اس پر سب کے دستخط ہوں اور اس تاریخ میں کسی قسم کی توسیع نہیں ہو گی،سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے، عدالت صرف اس مسلئے کا حل چاہتی ہے تکنیکی پہلوؤں میں الجھنا نہیں چاہتے۔

جمعرات کو چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی ۔سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 29 جنوری تک مکمل کر لیا جائیگا جس کے بعد 11 فروری کو انتخابات ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ 3 سے 5 دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے اور 5 دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، 5 دسمبر سے 54 دن گنیں تو 29 جنوری بنتی ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات میں عوام کی آسانی کیلئے اتوار ڈھونڈ رہے تھے، 4 فروی کو پہلا اتوار بنتا ہے جبکہ دوسرا اتوار 11 فروری کو بنتا ہے، ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں۔دور ان سماعت ایڈووکیٹ عابد زبیری اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس نے وکلا سے مکالمہ کیا کہ دلائل کون دیگا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پہلے مجھے دلائل دینے کا موقع دیں۔سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے میں وکیل ہوں، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی وکالت میں کررہا ہوں۔

علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہئیں۔وکیل پیپلز پارٹی فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فریق کو اعتراض تو نہیں اگر عدالت فاروق نائیک صاحب کو اس کیس میں سنے۔وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہم فاروق ایچ نائیک صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں، عدالت نے پیپلز پارٹی کو انتخابات کیس میں فریق بننے کی اجازت دیدی۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر موثر ہو چکی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کی کوئی مخالفت کریگا، میرا نہیں خیال کوئی مخالفت کریگا۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے جس پر اٹارنی جنرل نے انکار میں جواب دیا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 58اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگئی نا قانون بنیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے۔علی ظفر نے کہا کہ وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا۔علی ظفر نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختلاف کرنے والے چاہیں اختلاف کرتے رہیں ، ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں، صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے؟۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت نے تو الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کر کے خود آئین کی خلاف ورزی کی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدر تاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کیلئے پوری مشینری شامل ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ انتخابات کی تاریخ دے سکتی ہے؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے، صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے؟۔علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں، صدر کو فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت، الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہئیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب کیا آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کے تاریخ دیں ۔علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدر اپنے ہاتھ کھڑے کرکے کہہ رہے ہیں جاؤ عدالت سے رائے لے لو، صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کیلئے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئینی خلاف ورزی ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی خلاف ورزی پر جس کے خلاف کارروائی کرنی ہے اس کے فورمز موجود ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کرائیں گے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو صدر سے مشاورت نہ کر کے آئین کو دوبارہ تحریر کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت آن بورڑ ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم صدر مملکت کو آن بورڑ لینے کے پابند نہیں ہیں۔سپریم کورٹ نے تاریخ دینے سے قبل صدر سے مشاورت نہ کرنے پر اظہاربرہمی کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر بھی پاکستانی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی پاکستانی ہے، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت نہ کرنے پر کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ اس معاملے پر صدر مملکت سے بھی مشاورت کر لی جائے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن جلد صدر پاکستان سے ملاقات کا بندوبست کرے اور مشاورت کے بعد ایک تاریخ طے کر کے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اس بارے میں آج جمعرات کو ہی عدالت کو آ کر بتائیں، اگر آج ہی الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کر لیتا ہے تو سماعت کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی جائیں چیف الیکشن کمشنر سے کہیں کہ صدر سے مشورہ کریں اور آ کر عدالت کو بتائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی کو اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن صدرِ مملکت سے مشاورت کر لے؟سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ صرف پتھر پر درج انتخابات کی تاریخ چاہیے۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مشاورت پر کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں ہم نے پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو اکٹھا کر دیا، کل کو سرخی نہ لگی ہو کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کا اتحاد ہو گیا ہے۔عدالت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ یہ دونوں ویسے ہی بہت قریب ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ الیکشن کمیشن صدر مملکت سے مشاورت کے معاملے پر فیصلہ کر لے پھر کیس کی سماعت کرتے ہیں اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیاجس کے بعد الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے ہنگامی اجلاس ہوا۔ وقفے کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کرنے کے فیصلے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر وہ آپ کو نہ بھی بلائیں پھر بھی آپ ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیں، چیف جسٹس نے آج جمعرات کو ہی صدر مملکت سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل مشاورت میں ان بورڈ رہیں، اٹارنی جنرل الیکشن کمیشن اور صدر پاکستان کی چائے پر ملاقات کرانے کا اہتمام کرے۔چیف جسٹس نے سماعت کا حکمنامہ لکھوایا اور چیف جسٹس نے کہا کہ جو تاریخ دی جائے گی اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا، سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے، عدالت صرف اس مسلئے کا حل چاہتی ہے تکنیکی پہلوؤں میں الجھنا نہیں چاہتے۔

عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا حلقہ بندیوں کا عمل 30 نومبر کو مکمل ہو گا، الیکشن کمیشن کی مطابق اس کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق تمام مشق 29 جنوری بروز پیر کو مکمل ہو گی، الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل میں زیادہ عوامی شرکت کیلئے اتوار کے روز کی تجویز دی۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ فون اٹھائیں اور صدر کے ملٹری سیکرٹری کو ملیں، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کر کے (کل) جمعہ کو سپریم کورٹ کو آگاہ کرے۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدر مشاورت کر کے دستاویزات عدالت میں پیش کریں، دستاویز پر سب کے دستخط ہوں گے تا کہ کوئی مکر نہ سکے، حتمی تاریخ کے بعد اس میں توسیع کی درخواست نہیں سنی جائیگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں