چین

چین کسی کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، عالمی میڈ یا

بیجنگ (نیوز ڈیسک)جاپان کے اخبار نہون کیزئی شمبون نے “چین مشرق وسطی میں کمزوروں کی حمایت کرتا ہے اور امریکہ کے یک قطبی نظام کو چیلنج کرتا ہے” کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ مضمون میں کہا گیا ہے کہ چین کے فلسطین کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔دوسری طرف 1992 میں چین اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بھی گہرے ہوئے ہیں۔ تاہم چین نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی اور اقوام متحدہ میں اس کی رکنیت کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ جیسے جیسے فلسطین اسرائیل محاذ آرائی شدت اختیار کرتی گئی، چین نے امریکہ کے یونی پولر نظام کے خلاف اس سفارتی پالیسی پر عمل جاری رکھا۔

درحقیقت مضمون میں مذکورہ بالا بیان صرف آدھا سچ ہے یعنی چین عالمی امن و خوشحالی اور دوسرے ممالک کے ساتھ اچھے دوطرفہ تعلقات قائم کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن دوسری جانب چین نے کبھی بھی کسی محاذ آرائی کو بھڑکانے کا ارادہ نہیں کیا اور چین ہمیشہ صرف انصاف کے شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے اور بہادری سے انصاف کے لئے بات کرتا ہے ، چاہے انصاف کا مخالف کوئی بھی ہو۔

حال ہی میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے خصوصی برکس سربراہ اجلاس میں فلسطین اسرائیل تنازعہ پر اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ مشرق وسطیٰ کے مسئلے کا بنیادی نکتہ ہے اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کا حل اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور “دو ریاستی حل” پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس سے قبل چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے 20 تاریخ کو بیجنگ میں عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات میں کہا تھا کہ چین غزہ میں لڑائی کو جلد از جلد ختم کرنے، انسانی بحران کو کم کرنے اور مسئلہ فلسطین کے جلد، منصفانہ اور دیرپا حل کو فروغ دینے کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔ اجلاس میں شریک عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا کہ چین فلسطین اسرائیل تنازعہ کے خاتمے، فلسطین اسرائیل مسئلے کے حل اور عدل و انصاف کے حصول میں بڑا کردار ادا کرے گا۔ چینی رہنماؤں اور حکومت کی ان مثبت کوششوں نے مشرق وسطیٰ کے مسئلے میں چین کے تعمیری کردار کو مزید واضح کیا ہے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھی مثبت ردعمل سامنے آیا ہے، جن کا ماننا ہے کہ چین کا نقطہ نظر بین الاقوامی برادری کی امن پسند آواز کی نمائندگی کرتا ہے۔ خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں چین کا موقف زیادہ قابل اعتماد ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چین تنازعات کے معاملے پر منصفانہ موقف رکھتا ہے اور ایک ایسی قوت ہے جو حقیقی معنوں میں علاقائی امن و استحکام کے لیے انتھک کوششیں کرتی ہے۔
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ چین کا تعمیری موقف فلسطین اسرائیل تنازعے میں مغربی ممالک کے دوہرے معیار کے بالکل برعکس ہے۔ ایک طرف وہ اسرائیل کے حق میں متعصب ہیں اور دوسری طرف فلسطینی فریق کے جائز مطالبات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے منصفانہ عالمی نظام کے مطالبے کا مطلب یہ ہے کہ دوہرے معیار کو بین الاقوامی سیاسی طرز عمل کی بنیاد کے طور پر استعمال نہ کیا جائے بلکہ انصاف، منصفانہ اور معقولیت کے اصولوں کی پاسداری کی جائے، تمام ممالک کے اقتدار اعلی اور قومی خودمختاری کے حق کا احترام کیا جائے اور بات چیت اور مشاورت کے ذریعے علاقائی تنازعات کے سیاسی تصفیے کو فروغ دیا جائے۔ بین الاقوامی سطح پر چین کے پختہ اور ذمہ دارانہ رویے نے بین الاقوامی برادری کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔

نہون کیزئی شمبون کے مزکورہ مضمون میں کہا گیا ہے کہ “مسئلہ فلسطین کے حوالے سے چین اب سفارت کاری کے میدان میں دو مشنز پر عمل کر رہا ہے۔ ایک “چینی خصوصیات کے ساتھ بڑے ملک کی سفارت کاری” کا عمل ہے، اور دوسرا موجودہ عالمی نظام کو تبدیل کرنے میں چینی بیانیے کا کردار. درحقیقت بین الاقوامی معاملات میں چین کے اصولی موقف کے پیچھے اس کا انصاف پر یقین اور کشادہ سوچ ہے۔ “بے لوث لوگ بے خوف ہوتے ہیں”، انصاف کو برقرار رکھنے اور عالمی امن کے دفاع کے لئے چین کی کوششوں کے پیچھے ایمان کی یہی طاقت ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں