سابق چیئرمین پی ٹی آئی

سپریم کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان، شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت منظورکرلی

اسلام آباد (گلف آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں سابق و زیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے دونوں کو دس دس لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیاہے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جیل میں قید شخص ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے،

اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں، عوام کے حقوق کا ہے، بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے، اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، وزیر خارجہ سیانا تھا، سائفر کے بارے میں نہیں بتایا، وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔

قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ میں شامل تھے۔سپریم کورٹ نے درخواست منظور کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جس انداز میں ٹرائل ہو رہا ہے، پراسیکیوشن خود رولز کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جیل میں قید شخص ایک بڑی جماعت کی نمائندگی کرتا ہے، اس وقت معاملہ بانی پی ٹی آئی کا نہیں، عوام کے حقوق کا ہے۔انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پر جرم ثابت نہیں ہوا، وہ معصوم ہیں، انتخابات میں حصہ لینا ہی ضمانت کے لیے اچھی بنیاد ہے۔قبل ازیں سماعت کے آغاز پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا،

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی نوٹس کر دیتے ہیں، آپ کو کیا جلدی ہے۔وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کر لیے ہیں، جس پر قائم قام چیف جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ اسپیڈی ٹرائل ہر ملزم کا حق ہوتا ہے،

آپ کیوں چاہتے ہیں ٹرائل جلدی مکمل نہ ہو؟وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کیمرا ٹرائل کے خلاف آج ہائی کورٹ میں بھی سماعت ہے جبکہ وکیل حامد خان نے بتایا کہ دوسری درخواست فرد جرم کے خلاف ہے۔قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے، نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ٹرائل اب بھی اسی چارج شیٹ پر ہو رہا ہے جو پہلے تھی، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ پرانی چارج شیٹ کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی ہے، نئی فرد جرم پر اعتراض ہے تو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں۔وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مناسب ہوگا ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ایسا نہ ہو آئندہ سماعت تک ٹرائل مکمل ہوجائے۔وکیل سابق چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شام چھ بجے تک ٹرائل چلتا ہے،

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عدالتی اوقات کار کے بعد بھی ٹرائل چل رہا ہوتا ہے۔قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں ہمارے کیس چلتے نہیں، آپ کا چل رہا ہے تو آپ کو اعتراض ہے، فرد جرم والی درخواست غیر موثر ہونے پر نمٹا دیتے ہیں۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ حامد خان درخواست میں ترمیم کر چکے ہیں، اب اسے نئی درخواست کے طور پر لیا جائے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ترمیم شدہ درخواست بھی ہائیکورٹ سے پہلے ہم کیسے سن سکتے ہیں؟

سائفر کیس میں 13دسمبر کی فردجرم چیلنج ہی نہیں کی گئی۔وکیل حامد خان نے کہا کہ ہائی کورٹ کارروائی کا انتظار کیا جائے، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ بری کر دے تو بھی اس درخواست پر کچھ نہیں ہوسکتا، فرد جرم کے خلاف درخواست غیر موثر ہوچکی ہے۔وکیل حامد خان نے کہا کہ آج التوا دے دیں، آئندہ سماعت پر شاید واپس لے لوں، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ کیس ملتوی ہوا تو ضمانت والا بھی ساتھ ہی ہوگا۔

دور ان سماعت عدالت نے شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر حکومت اور ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سرکاری وکیل کو آج ہی دلائل دینے کی ہدایت کردی۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا، وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔

وکیل سابق وزیراعظم سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پراسیکویشن کا کیا کہنا ہے کہ سائفر کس کیساتھ شیئر کیا گیا؟ سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کسی کے ساتھ کبھی شیئر نہیں کیا گیا۔سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر کو ڈی کلاسیفائی کرنے کے بعد ہی سپریم کورٹ کو بھیجا گیا تھا،

سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقصد ہی یہی ہے کہ حساس معلومات باہر کسی کو نہ جا سکیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈپلومیٹک معلومات بھی حساس ہوتی ہیں لیکن ان کی نوعیت مختلف ہوتی ہے،

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید نے سائفر حساس ترین دستاویز کے طور پر بھیجا تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس بات پر تو آپ متفق ہیں کہ حساس معلومات شیئر نہیں ہوسکتیں، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دیکھنا یہی ہے کہ حساس معلومات شیئر ہوئی بھی ہیں یا نہیں،۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کیخلاف سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد ہی نہیں ہوتیں،

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر کسی سے شیئر نہیں کیا لیکن اسے آن ایئر تو کیا ہی گیا ہے۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ سے سائفر اعظم خان کو بطور پرنسپل سیکرٹری موصول ہوا تھا، جس میٹنگ میں سائفر کا الزام ہے وہ 28 کو ہوئی، چالان کے مطابق جس جلسے میں سائفر لہرانے کا الزام ہے وہ 27 تاریخ کو ہوا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل سائفر تو وزارت خارجہ میں ہے اگر وہ باہر گیا ہے تو یہ دفتر خارجہ کا جرم ہے، سائفر کو عوام میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا وزیراعظم کو سازش کا بتا دیا ہے، حلف کا پابند ہوں، اس بیان کے بعد شاہ محمود قریشی 125 دن سے جیل میں ہیں۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے جلسے میں کہا تھا میرے پاس یہ خط سازش کا ثبوت ہے،

جلسے میں کہیں نہیں کہا کہ سائفر میں کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے، ایک طرف کہتے ہیں سائفر پبلک کیا ساتھ ہی کہتے ہیں، ان کیمرا ٹرائل ہونا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ استفسار کیا کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا؟ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ دفعہ 164 کا بیان ملزم کا اعترافی بیان ہوتا ہے، اعظم خان کے اہلخانہ نے ان کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا، اعظم خان دو ماہ لاپتا رہے، یہ اغوا برائے بیان کا واقعہ ہے۔

قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اغوا برائے تاوان تو سنا تھا اغوا برائے بیان کیا ہوتا ہے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میرے لیے سب سے آسان الفاظ اغوا برائے بیان کے ہی تھے، قائم قام چیف جسٹس نے کہا کہ اغوا برائے بیان ابھی اصطلاح ہے۔وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے بیان دیا کہ سابق وزیراعظم سے سائفر مانگا تو انہوں نے کہا گم گیا ہے، سابق وزیراعظم نے ملٹری سیکرٹری کو بھی سائفر تلاش کرنے کا کہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان نے کہا ان کی موجودگی میں ہی بنی گالہ میں وزارت خارجہ نے بریفننگ دی۔قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق نے استفسار کیا کہ کیا سیکرٹری خارجہ ملزم ہیں یا گواہ؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت کے سیکرٹری خارجہ گواہ ہیں، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ وزارت خارجہ نے سترہ ماہ تک سائفر کی کاپی وزیراعظم سے نہیں مانگی، اعظم خان کے مطابق عمران خان عسکری قیادت پر دباؤ ڈالنا چاہتے تھے،

اعظم خان نے کہا بنی گالہ میٹنگ کے بعد سائفر کو پبلک میں لہرانے کا فیصلہ ہوا۔سلمان صفدر نے سابق وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا جلسے میں خطاب کا متن پڑھ دیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہتر ہو گا آپ دلائل ضمانت تک محدود رکھیں، پوری دنیا میں سفیر اپنے ممالک کو سائفر بھیجتے ہیں، انہیں کبھی پبلک میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔جسٹس سردار طارق مسعود نے شاہ محمود قریشی کی تقریر کا متن سن کر ریمارکس دیے کہ سائفر کس نے لکھا،

کیا کہا گیا یہ جلسے میں نہیں بتایا گیا، وزیرخارجہ سیانا تھا اس نے وزیراعظم کو آگے کر دیا، وزیرخارجہ نے وزیراعظم کو کہہ دیا تم جانو تمہارا کام جانے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن آنے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی ایک سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟ دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، دفتر خارجہ سائفر کسی کو بھیج ہی نہیں سکتا، اگر ایسا ہوا ہے تو غلطی دفتر خارجہ سے ہوئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو جیل میں رکھنے سے معاشرے کو کیا خطرہ ہوگا؟کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟سلمان صفدر نے کہا کہ اعظم خان کا بیان دباؤ کا نتیجہ ہے تفتیشی افسر نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، اعظم خان نے واپس آتے ہی سابق وزیراعظم کے خلاف بیان دے دیا۔جسٹس اطہر من اللہ نے سائفر کیس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ تفتیشی کو کیسے پتہ چلا بنی گالہ میں میٹنگ ہوئی تھی؟

تفتیشی نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں؟ دفتر خارجہ سائفر وزیراعظم کو بھی دے سکتا ہے؟ سائفر باہر گیا تو غلطی دفتر خارجہ کی نہیں؟ الیکشن آنے والے ہیں اور بانی پی ٹی آئی بڑے سیاسی لیڈر ہیں، یہ بتائیں کیا ان کے باہر آنے سے سوسائٹی کو کوئی خطرہ ہے؟سلمان صفدر نے پریڈ گرائونڈ میں 27 مارچ 2022 کے جلسے میں شاہ محمود قریشی کی تقریر پڑھ کر دی، کہا شاہ محمود قریشی نے تقریر میں کہا کہ بہت سے راز ہیں لیکن حلف کی وجہ سے پابند ہوں سامنے نہیں رکھ سکتا،

اس پر جسٹس سردار طارق نے کہا وزیر خارجہ خود سمجھدار تھا، سمجھتا تھا کہ کیا بولنا ہے کیا نہیں، وزیر خارجہ نے سائفر کا کہا کہ بتا نہیں سکتا اور عمران خان کو پھنسا دیا کہ آپ جانیں اور عمران جانے، خود بچ گئے اور عمران کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان نے بھی پبلک سے کچھ شئیر نہیں کیا تھا، نا ایسا کوئی جرم کیا کہ سزائے موت یا عمر قید کی دفعات عائد کی جائیں، اگر کچھ غلط نہیں ہوا تھا، تو امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیوں کیا گیا؟

سائفر کے خفیہ کوڈز کبھی سابق وزیراعظم کے پاس تھے ہی نہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خارجہ سائفر سے متعلق حکومت کو آگاہ کرتی ہے تاکہ خارجہ پالیسی میں مدد مل سکے، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا دائرہ وسیع کرکے سابق وزیراعظم پر لاگو کیا گیا،آفیشل سیکریٹ ایکٹ افواج پاکستان کے حوالے سے ہے جو ملکی دفاع سے جڑا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائفر کا مقدمہ بنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ سابق فوجی افسران پر لگا جنہوں نے حساس معلومات دشمن ممالک کو دیں، وزارت خارجہ کے اپنے پروٹوکولز ہیں، اس قانون کا اطلاق کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر دشمن ملک کے ساتھ شیئر کرنے پر ہوتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ سو سال پرانا قانون ہے جو سنگین جرائم کے کیسز میں استعمال ہوتا ہے۔وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں مختلف بھارتی فیصلوں کے حوالے دیے، یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے جو کہ سابق وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے خلاف بنایا گیا،

سائفر وزارت خارجہ سے آیا، پراسیکیوشن کے مطابق ان کا سکیورٹی سسٹم رسک پر ڈالا گیا، وزارت خارجہ نے سائفر سے متعلق کوئی شکایت نہیں کی۔سلمان صفدر نے کہا کہ سابق وزیراعظم کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، رانا ثنااللہ نے بطور وزیر داخلہ ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے کا کہا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سائفر کوڈز کی صورت میں آتا ہے، وزارت خارجہ کبھی بھی کوڈز پر مبنی سائفر وزیراعظم کو نہیں دیتا،

وزارت خارجہ وزیراعظم کو سائفر کا ترجمہ یا اس پر بریفنگ دیتی ہے۔سلمان صفدر نے کہا کہ سائفر اس وقت بھیجا جاتا ہے جب کوئی اہم بات وزارت خارجہ کو بتانا مقصود ہو، سائفر کوڈز ہر ماہ تبدیل ہوتے ہیں، سائفر کا انگریزی ترجمہ متعلقہ لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔تحریک انصاف کے وکیل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کو کاغذات جمع کرانے سے روکا جا رہا ہے، قائم قام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آپ کا امیدوار اشتہاری ہو تو کیا ہوگا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو درخواست دی ہے؟

وکیل نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بھی آ گاہ کر دیا ہے، ہماری درخواست سماعت کیلئے مقرر کی جائے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت بعد از گرفتاری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپنی درخواست ضمانت مسترد کیے جانے کے فیصلے کو اپنے وکیل سردار لطیف خان کھوسہ کے توسط سے چیلنج کیا.

اپنا تبصرہ بھیجیں