کراچی(نمائندہ خصوصی)سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر شہریوں کو بازیاب کرانے کے لیے انکی تصاویر سوشل میڈیا پرشائع کرنے،جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن ڈیواسسز کے استعمال کاحکم دیتے ہوئے مزید سماعت8فروری تک ملتوی کردی ہے۔
جمعرات کو سندھ ہائیکورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لئے کیا اقدامات ہوئے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ 21 جے آئی ٹیز اور 16 صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس ہو چکے ہیں۔دوران سماعت اہل خانہ نے بتایاکہ محمد زبیر 2014 بغدادی سے لاپتا ہوا تھا اب تک کہیں سے اس کا سراغ نہیں ملا۔
2014 سے پولیس اسٹیشن اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کہیں سے انصاف نہیں ملا۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ پریشان نہ ہوں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں آپ کو انصاف ملے گا۔ دوسرے لاپتا شہری کے اہل خانہ نے کہا کہ حسن دلاور 2015 لانڈھی سے لاپتا ہوا تھا اب تک کوئی پتہ نہیں کہاں ہے کس حال میں ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ کتنی جے آئی ٹیز ہوچکی ہیں؟ تفتیشی افسر نے بتایا کہ 30 جے آئی ٹیز اور 12 صوبائی ٹاسک فورس اجلاس ہوچکے ہیں۔
لاپتا شہری کے اہل خانہ نے کہا کہ ثاقب آفریدی بھی 2015 سچل سے لاپتا ہوا تھا۔ عدالت نے انوسٹی گیشن افسر سے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کی بازیابی کے لئے کیا اقدامات کیے ہیں۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے کہا کہ 22 جے آئی ٹیز اور 15 صوبائی ٹاسک فورس کے اجلاس ہوچکے ہیں، تلاش جاری ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسران پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ 22 ،22 جے آئی ٹیز کے باوجود بھی لاپتا شہریوں کا سراغ نہیں لگایا گیا۔
تین لاپتا شہریوں کے اہلخانہ نے عدالت کو بتایا کہ سید نوید علی ساحل پولیس اسٹیشن سے، ظفر اقبال سائٹ سپر ہائی وے سے اور اعزاز حسن ناظم آباد سے لاپتا ہوئے ہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسران کو لاپتا شہریوں کی تلاش جاری رکھنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے لاپتا شہریوں کی بازیابی کے لئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر نشر کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے تمام لاپتا شہریوں کی بازیابی کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور ماڈرن ڈیواسسز کا استعمال کرنے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے ایس پی انویسٹی گیشن سے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 8 فروری تک ملتوی کردی۔