بیجنگ (نمائندہ خصوصی) امریکہ میں چینی سفارت خانے کے زیر اہتمام اسپرنگ فیسٹیول کے استقبالیہ میں چینی سفیر شے فنگ نے اپنی تقریر میں نشاندہی کی کہ ” چین کے معاشی انہدام کا نظریہ ” بار بار منہدم ہو چکا ہے، اور نہ ہی ٹیرف جنگیں، ٹیکنالوجی کی جنگیں، نہ ہی علمی جنگیں چین کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو روک سکی ہیں”۔
چینی سفیر کے ان ریمارکس نے لوگوں کو ایک بار پھر مذاق کی طرح ” چین کے معاشی انہدام کے نظریہ ” کی یاد دلا دی جو کئی دہائیوں سے مغربی میڈیا میں روانی سے چل رہا ہے اور لوگوں کو ان گنت بار منہدم کرنے کا سبب بنا ہے۔ یہ دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنی آنکھیں بند کر کے “چین کے معاشی انہدام کے نظریے” کو ہوا دیتے چلے آ رہے ہیں ،وہ واقعی فولادی اعصاب رکھتے ہیں جنہیں طاقتور کاکروچ کی طرح پیٹ پیٹ کر مارا نہیں جا سکتا “۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ” چین کے معاشی انہدام کے نظریے ” کے کٹھن سفر پر نظر ڈالیں تو لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ مغرب کئی دہائیوں سے ” چین کے معاشی انہدام کے نظریے ” کا راگ آلاپ رہا ہے، لیکن اس نے خود کو زوال پذیر معیشت میں تبدیل کر لیا ہے،جبکہ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے، اور چین کی اقتصادی ترقی کی شرح یورو خطے سے دس بارہ گنا زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ مغربی ممالک نے امریکہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چین کے خلاف مزید تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں چین کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعاون سکڑ گیا ہے اور یورپ کی معیشت زیادہ سے زیادہ مایوس کن ہو گئی ہے۔ دوسری طرف، چین ایک طویل عرصے سے ہمیشہ عالمی اقتصادی ترقی کی “اہم طاقت” رہا ہے، بھلے ہی عالمی معیشت سست ہو۔
امریکہ سے لے کر نیٹو تک، وہ سب چین کو اپنا نمبر ایک اسٹریٹجک حریف قرار دیتے ہیں، جس کی منطق انتہائی مضحکہ خیز ہے:آپ کی نظر میں چین جلد ہی منہدم ہونے والا ہے، تو آپ اب بھی اس کے ساتھ مقابلہ کیوں کر رہے ہیں! اس فضول منطق کی وضاحت بظاہر صرف الجھنے کی اداکاری سےہی کی جا سکتی ہے، یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چین نہ صرف زوال پذیر نہیں ہوگا، بلکہ مضبوط سے مضبوط تر ہو جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں، خود چین کو اپنی مضبوطی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ،بلکہ مغربی ممالک کے اقدامات بذاد خود ہی ‘چین کی معاشی چمک کے نظریے ‘ کا واضح ثبوت ہیں۔
اصلاحات اور کھلے پن کے 45 سال سے زائد عرصے کے بعد، چین کی معیشت نے ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جنہوں نے دنیا بھر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ چین کی معیشت 2023 میں 5.2 فیصد بڑھی، جو دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اسی سال چین نے عالمی اقتصادی ترقی میں ایک تہائی حصہ ڈالا ہے ۔
بلومبرگ بزنس ویک نے کہا کہ چین کی معیشت اگلے 10 سالوں میں ترقی کرتی رہے گی اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گی؛ اور فنانشل ٹائمز نے بھی تسلیم کیا کہ چین کی معیشت 21 ویں صدی میں عالمی معاشی ترقی کی اہم محرک قوت بن جائے گی۔
سمجھدار لوگوں کے لئے یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ چین کے پاس ایک انتہائی بڑی مارکیٹ اور مکمل صنعتی نظام ہے، اور چین کی معیشت لچکدار ہے اور اس میں زبردست صلاحیت ہے. چینی حکومت معیشت کو ریگولیٹ اور کنٹرول کرنے کی مضبوط صلاحیت رکھتی ہے اور مختلف پالیسی اقدامات کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرنے اور انتظامی خطرات کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اب چین کی معیشت تیز رفتار ترقی کے مرحلے سے اعلیٰ معیار کی ترقی کے مرحلے میں منتقل ہو رہی ہے، اس کا معاشی ترقی کا ماڈل مسلسل تبدیل اور اپ گریڈ ہو رہا ہے،ترقی کی نئی ڈرائیونگ قوت مسلسل بڑھ رہی ہے، نئی معیاری پیداواری صلاحیت دھماکہ خیز طور پر بڑھ رہی ہے، اعلیٰ سطحی اوپننگ اَپ میں توسیع جاری ہے، اور چینی طرز کی جدیدیت کا راستہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ واضح ہے کہ چین کی معیشت کے بارے میں مغرب کا انہدامی نظریہ مخالفین کو دبانے کی ایک چال سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اور مغرب کی اس نفسیاتی جنگ کی وجہ سے چین کی مستقل ترقی نہیں رکے گی۔
یقیناً، چین کی تیز رفتار اور اعلیٰ معیار کی اقتصادی ترقی کا عمل ہمیشہ مختلف مشکلات اور چیلنجوں کے ساتھ رہا ہے. جیسا کہ چینی رہنما شی جن پھنگ نے کہا، “کب کوئی مشکل نہیں ہوتی؟ ایک ایک کرکے ہم ان پر قابو پا لیتے ہیں ،اور چین سال بہ سال بہتر ہوتا چلا آ رہا ہے، چینی قوم پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصے سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے۔ رکاوٹوں پر کنٹرول کی کلید اعتماد کو بڑھاناہے”۔ یہ چینی رہنماؤں اور معاشرے کی تمام سطحوں میں ایک عام اتفاق رائے ہے ۔ چین کو سوشلسٹ مارکیٹ کی معیشت کے ادارہ جاتی فوائد حاصل ہیں ، اور چین کی طویل مدتی معاشی بہتری کا بنیادی رجحان تبدیل نہیں ہوا ہے۔اس سب نے چین کو ایک مضبوط عزم اور بے پناہ اعتماد دیا ہے کہ چین کسی بھی “طوفان کے سامنے پہاڑ کی طرح مضبوط اور محفوظ ہوگا”۔