جمہوریت

جمہوریت سے غیر وابستہ “سمٹ فار ڈیموکریسی” کو ختم ہونا چاہیے، میڈ یا رپورٹ

سیئول (نمائندہ خصوصی) امریکہ کی جانب سے شروع کردہ تیسری ” سمٹ فار ڈیموکریسی ” جنوبی کوریا میں ختم ہو گئی۔ امریکہ نے اس سے قبل دو نام نہاد ” سمٹ فار ڈیموکریسی ” کی بالترتیب دسمبر 2021 اور مارچ 2023 میں میزبانی کی تھی۔ امریکہ نے اس مرتبہ اپنے بالادستی کے رنگ کو ہلکا کرنے کے لئے موجودہ سمٹ کی میزبانی کا حق جنوبی کوریا کو دیا، لیکن اس سےسمٹ کے مقصد کو ذرہ برابر بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا، یعنی “جمہوریت” کے نام پر اس نے دراصل “گروہ بندی اور دھڑا بندی” کا رواج اپنایا ہے۔

اس حوالے سے جنوبی کوریا کے عوام کی رائے بالکل واضح ہے۔ جنوبی کوریا کے شہری گروپس نے حال ہی میں سیئول کے مرکزی علاقے میں ریلی نکالی، مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز پر “امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے منعقدہ سمٹ فار ڈیموکریسی کی مخالفت کریں” اور “سمٹ فار ڈیموکریسی جھوٹی جمہوریت کو فروغ دیتی ہے” جیسے نعرے درج تھے۔ کورین نیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر چنگ ووک ہیانگ نے حال ہی میں ایک مضمون میں نشاندہی کی کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے دور اقتدار کے آغاز میں ہی نام نہاد ” سمٹ فار ڈیموکریسی ” کو عالمی نظام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور ایک دوسرے کی مخالفت کرنے کے طور پر رکھا تھا۔

ان تین نام نہاد ” سمٹ فار ڈیموکریسی ” کا نہ صرف جمہوریت سے کوئی لینا دینا ہے بلکہ یہ کوئی مفید نتائج حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ پہلی ورچوئل سمٹ کو “آن لائن سلائیڈ شو” تک محدود رکھا گیا ، دوسری سمٹ میں یوکرین کے بحران جیسے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ، اور موجودہ اجلاس میں انسانیت کے مستقبل پر توجہ مرکوز کرنے کا دعوی تو کیا گیا ، لیکن بین الاقوامی برادری کے “عالمی بحران کے زیادہ جامع حل” کے مطالبے کو بدستور نظر انداز کیا گیا ۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، جنہوں نے موجودہ اجلاس میں شرکت کے لئے ایک وفد کی قیادت کی، جنوبی کوریا میں “سمٹ ” کے پہلے دن کی سرگرمیوں میں شرکت کے فوری بعد ہی فلپائن کے لئے روانہ ہو گئے۔

جس طرح سےگزشتہ تین “سمٹ فار ڈیموکریسی” کا انعقاد کیا گیا ، وہ بھی جمہوریت سے بالکل عاری رہا ہے، اور اس پر بڑے پیمانے پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ امریکہ نے شرکت کرنے والے ممالک کا انتخاب اپنی ” منتخب فہرست” کی بنیاد پر کیا ہے۔ اس حوالے سے اطالوی قانون دان فابیو مارچیلی نے کہا کہ جمہوریت پر بات کرنے کے لئے تمام ممالک کو شامل ہونا چاہیے اور اتفاق رائے کی بنیاد پر مخصوص معاملات پر تبادلہ خیال سے جمہوریت کی ترقی کو مؤثر طریقے سے فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔ امریکی میگزین “گلوبل اسٹریٹجی انفارمیشن” کے وائٹ ہاؤس کے سابق نامہ نگار ولیم جونز کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ واقعی “جمہوریت” پر ایک کانفرنس بلانا چاہتا ہے تو اجلاس کا پہلا موضوع یہ ہونا چاہیے کہ “جمہوری نظام” جس پر مغرب بہت فخر کرتا ہے، کیوں ناکام ہو رہا ہے۔

درحقیقت، امریکہ میں برسوں سے جاری افراتفری کے مناظر نے امریکی جمہوریت کے کھوکھلے پن، سیاسی معذوری اور معاشرتی عدم ہم آہنگی کا حقیقی چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ہیج فنڈ برج واٹر فنڈ کے بانی رے ڈیلیو نے اپنے ایک مضمون میں کہا ہے کہ موجودہ امریکی معاشرے کو پانچ بڑی افراتفریوں کا سامنا ہے: سیاستدانوں کا کوئی معروضی موقف نہیں ہے، لوگ حکومت پر اعتماد نہیں کرتے، میڈیا سچائی کی عکاسی نہیں کرتا، اور لوگ میڈیا پر یقین نہیں رکھتے اور عدالتی ناانصافی ۔ امریکی کیپیٹل ہل کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے نتائج کے مطابق 82 فیصد رائے دہندگان امریکہ میں جمہوریت کی صورتحال کے بارے میں فکرمند ہیں اور ان میں سے 40 فیصد بہت پریشان ہیں۔ یہ تشویش دونوں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک رائے دہندگان میں واضح ہے۔

ایک ایسا ملک، جس کے جمہوری نظام پر اپنے شہری بھی بھروسہ نہیں کرتے، وہ نام نہاد “سمٹ فار ڈیموکریسی” سے دوسرے ممالک کو کیسے یقین دلا سکتا ہے؟ متحدہ عرب امارات کے اخبار “دی نیشنل” کی ویب سائٹ پر شائع شدہ ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت کے ہائی پروفائل پروپیگنڈے کے باوجود اجلاس کے لئے لوگوں کا جوش اتنا کم تھا کہ بہت سے لوگوں کو اس کے انعقاد کا سرے سے کوئی علم ہی نہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی تاریخ میں متمول لوگ برسراقتدار رہے ہیں اور “امریکی طرز کی جمہوریت” میں پیسوں کی سیاست ہمیشہ غالب رہی ہے۔ ووٹرز صرف اس وقت پسند کیے جاتے ہیں جب وہ ووٹ ڈالتے ہیں، اور ووٹ ڈالنے کے بعد انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ لوگ صرف انتخابی مہم کے دوران پرکشش نعرے سنتے ہیں جبکہ الیکشن کے بعد ان کی بات کوئی نہیں سنتا ۔ کئی سالوں سے جاری یہ صورتحال “امریکی طرز کی جمہوریت” کی حقیقی تصویر ہے۔ اس طرح کی “منی ڈیموکریسی” جو صرف امیروں کی خدمت کرتی ہے، امریکی طرز کی جمہوریت کی “منافقت” طے کرتی ہے۔ جمہوریت کا اصل معنیٰ “عوام کی حکمرانی ” ہے، اور آیا کیا یہ لوگوں کی رائے سن سکتی ہے، لوگوں کے مسائل حل کر سکتی ہے، اور لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنا سکتی ہے، یہ کسی بھی ملک کے لئے صحیح جمہوریت کی کسوٹی ہے۔جبکہ عالمی سطح پر جمہوریت کی بین الاقوامی اہمیت یہ ہے کہ وہ دنیا کو درپیش بحرانوں اور چیلنجوں کو حل کرے اور دنیا کے امن و استحکام اور تمام ممالک کی ترقی کو فروغ دے۔

دنیا رنگین ہے اور جمہوریت متنوع ہونی چاہیے۔ آج کی دنیا میں تمام ممالک کو جمہوری سیاست کی تعمیر میں ایک دوسرے کے تجربے سے سیکھنے کی ضرورت ہے، لیکن اس سلسلے میں ایک ایسا غیر جمہوری نظام ہر گز نہ اپنایا جائے جو بالادستی پر عمل کرتا ہے، اور جمہوریت کا ایک ہی ماڈل دوسروں پر مسلط کرتا ہے یا یہاں تک کہ “جمہوریت” کے جھنڈے تلے دوسرے ممالک کے مفادات کو بھی پامال کرتا ہے۔ سرد جنگ کی ذہنیت اور بلاک محاذ آرائی نہ صرف جمہوریت کے فروغ میں رکاوٹ ہے بلکہ جمہوریت کی روح کے خلاف بھی ہے۔ بین الاقوامی جمہوریت کا جوہر صرف ایک ایسی جمہوریت ہے جس میں دنیا بھر کے ممالک “مینو سے باہر” میز پر بیٹھ کر تبادلہ خیال اور ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔اور صرف ایک کھلے، جامع اور جیت جیت پر مبنی ہم نصیب تصور ، جو “عوام پر مرکوز” ہو اور پوری انسانیت کے مشترکہ مستقبل کا خیال رکھتا ہو ، جمہوریت کو ترقی کے صحیح راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔
جمہوریت سے غیر وابستہ ان “سمٹ فار ڈیموکریسی” کو ختم ہونا چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں