بیجنگ (نمائندہ خصوصی) چینی وزارت خارجہ کی معمول کی پریس کانفرنس میں ایک رپورٹر نے امریکی صدر بائیڈن کے ریمارکس کے بارے میں سوال کیا کہ وہ جاپان اور فلپائن کے ساتھ سمندری تعلقات کو مضبوط کریں گے۔
اس حوالے سے وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤننگ نے کہا کہ متعلقہ امریکی بیان بنیادی حقائق کے منافی ہے اور چین پر بدنیتی سے حملہ آور ہونے کا الزام لگاتا ہے، چین اس سے سخت غیر مطمئن ہے اور اس کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ چین کے موقف کے حوالے سے مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں۔
اول ۔چین کے پاس جنوبی بحیرہ چین کے جزائر بشمول رین آئی ریف، اور ان کے ملحقہ پانیوں پر ناقابل تردید خودمختاری ہے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین میں چین کے اقدامات معقول، قانونی اور مذمت سے ماورا ہیں۔دوسرا، بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی اور اوور فلائٹ کی آزادی میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ، لیکن ہم جہاز رانی اور اوور فلائٹ کی آزادی کے نام پر چین کی خودمختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کی خلاف ورزی کرنے والے متعلقہ ممالک کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔
تیسرا، “ساؤتھ چائنا سی ثالثی کیس” میں نام نہاد فیصلہ غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ چین کی علاقائی خودمختاری اور بحیرہ جنوبی چین میں سمندری حقوق اور مفادات اس فیصلے سے کسی بھی صورت میں متاثر نہیں ہوں گے۔
چوتھا، متعلقہ ممالک نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے غیر ملکی قوتوں کے ساتھ مل کر “چین پر قابو پانے” کے لیے غیر ملکی قوتوں کے پیادے بننے کو تیار ہیں۔ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ شطرنج کے ٹکڑے آخرکار لاوارث ٹکڑے بن جائیں گے۔
پانچواں، امریکہ سرد جنگ کی ذہنیت پر قائم ہے اور اکثر دوسرے ممالک کو دو طرفہ اتحاد کے معاہدوں کی دھمکیاں دیتا ہے، جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس سے علاقائی استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ماؤ ننگ نے کہا کہ چین علاقائی خودمختاری اور سمندری حقوق اور مفادات کا تحفظ جاری رکھنے اور جنوبی بحیرہ چین میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔