چیف جسٹس

جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں؟، سپریم کورٹ

اسلام آ باد (نمائندہ خصوصی )چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی نےسنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں؟کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو آئین کی درست وضاحت کر دیں،

الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں اپنی بات کریں، آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، عمران خان وزیر اعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں؟،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں رہی، لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کیس کی براہ راست سماعت کی جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں ، کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی ۔ سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے اعلی عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کا قدرتی حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا، آرٹیکل 51 اور 106 سے 3 ضروری نکات بتانا ضروری ہے، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو آپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کونسل کو کیسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟

کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کردیں، ہم ایسا کیوں کریں؟ وکیل نے جواب دیا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے،جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی پارٹی ہی نہیں ہے۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں رہی، لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی؟ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق 2 پڑھیں، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدوار الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں، پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکرا میں آتا ہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، آپ لوگ نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

وکیل نے جواب دیا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کے لیے کوئی چوائس نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، آپ صرف آئین پر رہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا، چیف جسٹس نے دوبارہ ریمارکس دیے کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا، پی ٹی آئی کے صدر تھے، انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، عمران خان وزیر اعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی؟ وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجا دیں گے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ وکیل نے مزید دلائل دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے؟ چیف جسٹس نے انہیں بتایا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا، ہمارے آئین کو بنے پچاس سال ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں؟کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کا مزید کہنا تھا کہ مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے، ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے،ب اس سے زیادہ کیا پروگریسو ہوگا؟ کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے؟ اس پر وکیل سنی اتحاد کونسل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔ اس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کروائے؟ الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے؟ عارف علوی تھے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کیا پی ٹی آئی کو ہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں، منت، سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، اس وقت وزیراعظم عمران خان تھے، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، سال بھر کی تاریخ دی گئی الیکشن کروانے کے لیے، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں، جب ہم ووٹر کی بات کر رہے ہیں تو ساڑھے آٹھ لاکھ پی ٹی آئی کے ممبران کا حق کدھر گیا؟ یہاں آدھی بات نہ کریں۔ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کے لیے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں