اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں، سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں،ہر فریق کہتا ہے نشستیں ہمیں دی جائیں،کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے؟
نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بدنیتی منسوب نہیں کر رہا،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال کر آئین کی خلاف ورزی کی،یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی ۔ منگل کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ بنچ نے کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیئے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ ہیں۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز پوچھے گئے عدالتی سوالات سے دلائل کا آغاز کروں گا، 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا ریکارڈ مانگا گیا تھا، 2002 اور 2018 کے انتخابات میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی ریکارڈ ہے، مخدوم علی خان نے بتایا آئین کے مطابق سیٹیں سیاسی جماعتوں کو ملیں گی نہ کہ آزاد امیدواروں کو، سیاسی جماعتیں تب مخصوص نشستوں کی اہل ہوں گی جب کم ازکم ایک نشست جیتی ہوگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہے۔
اس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 2018 میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین پڑھنا شروع کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 272 مکمل سیٹیں تھیں، 3 پر انتخابات ملتوی ہوئے، 13 آزاد امیدوار منتخب ہوئے، 9 امیدوار سیاسی جماعتوں میں شامل ہوئے، مخصوص نشستوں کا فارمولا 265 نشستوں پر نافذ ہوا، 2018 میں 60 خواتین اور 10 غیرمسلم سیٹیں مخصوص تھیں۔ اٹارنی جنرل نے 2002 میں مخصوص نشستوں سے متعلق بھی عدالت کو آگاہ کر دیا، انہوں نے بتایا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق 2002 میں آرٹیکل 51 کو بروئے کار لایا گیا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ انتخابات 2002 میں بلوچستان میں 20 فیصد آزاد امیدوار منتخب ہوئے تھے، مخصوص نشستوں کے تعین میں آزاد امیدواروں کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جو آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے وہ پارٹی کا رکن تصور ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے بنیادی سوال کا جواب ہی نہیں دیا، ایک سیاسی جماعت کو الیکشن کمیشن نے انتخابات سے نکال دیا، الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی، الیکشن کمیشن نے غیرآئینی اقدامات کئے تو کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہیں کہ اسے درست کرے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میری گزارشات کے آخری حصے میں اس سوال کا جواب ہوگا، سوال ہے کیا آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت ہو سکتی ہے، کیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی اہل ہے یا نہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد 2024 میں بہت بڑی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق کسی صورت کوئی نشست خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔
جسٹس منصور علی نے کہا کہ ماضی میں کبھی آزاد اراکین کا معاملہ عدالت میں نہیں آیا، اس مرتبہ آزاد اراکین کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کیس بھی آیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر اسمبلی مدت ختم ہونے میں 120 دن رہ جائیں تو آئین کہتا ہے انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی نظام کی بنیاد سیاسی جماعتوں پر ہے، موجودہ تنازع الیکشن کمیشن کی غلطیوں کی وجہ سے آیا، سوال یہ ہے آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد کہاں سے آئی؟ کیا لوگوں نے خود ان لوگوں کو بطور آزاد امیدوار چنا؟ کیا الیکشن کمیشن نے خود ان لوگوں کو آزاد نہیں قرار دیا؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن نے اتنے زیادہ آزاد امیدوار بنائے، جب ایسا ہوا ہے تو کیا عدالت کو یہ غلطی درست نہیں کرنی چاہیے؟ کیا وہ قانونی آپشن نہیں اپنانا چاہیے جو اس غلطی کا ازالہ کرے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے اندر چار ماہ میں الیکشن کمیشن کو تمام انتظامات پورے کرنے ہیں۔
جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 51 میں سیٹوں کا ذکر ہے، ممبر شپ کا نہیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 224 رعایت ہے ورنہ کوئی اسمبلی کی سیٹ خالی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی فریق کو یہ کہتے نہیں سنا کہ نشستیں خالی رہیں، ہر فریق یہی کہتا ہے کہ دوسرے کو نہیں نشستیں مجھے ملیں، آپ پھر اس پوائنٹ پر اتنا وقت کیوں لے رہے ہیں کہ نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں؟ موجودہ صورتحال بن سکتی ہے یہ آئین بنانے والوں نے کیوں نہیں سوچا؟ یہ ان کا کام ہے، آئین میں کیا کیوں نہیں ہے، یہ دیکھنا ہمارا کام نہیں ہے، بار بار کہہ رہا ہوں ہمارے سامنے موجود آئین کے متن پر رہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا اگر سنی اتحاد کونسل کو نشستیں نہیں ملتی تو خالی چھوڑ دیں، پارلیمانی پارٹی کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت نے انتخابات میں نشست جیتی ہو، پارلیمانی پارٹی ارکان کے حلف لینے کے بعد وجود میں آتی ہے، پارلیمانی پارٹی کی مثال غیرمتعلقہ ہے کیونکہ اس معاملے کا تعلق انتخابات سے پہلے کا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کی تشکیل کا ذکر آئین میں کہاں ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پارلیمانی پارٹی کا ذکر صرف آرٹیکل 63 اے میں ہے، آرٹیکل 63 اے کے اطلاق کیلئے ضروری ہے کہ پارلیمانی پارٹی موجود ہو۔
اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی پارٹی ڈیکلیئر کر چکا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ الیکشن کمیشن کس اختیار کے تحت پارلیمانی پارٹی ڈیکلیئر کرتا ہے؟ پارلیمانی پارٹی قرار دینے کا نوٹیفکیشن کیسے آیا؟ وہ نوٹیفکیشن سنی اتحاد کونسل نے ریکارڈ پر رکھا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جواب الجواب دلائل میں وہ خود بتا دیں گے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ وہ نہیں، آپ بتائیں الیکشن کمیشن کے اس نوٹیفکیشن پر کیا کہتے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نوٹیفکیشن اٹارنی جنرل کو دکھا دیا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن بھی دکھایا، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نوٹیفکیشن سے زرتاج گل کو پارلیمانی لیڈر بھی بنا چکا۔ اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی نہیں بنا سکتے، آزاد امیدواروں نے اسی میں شامل ہونا ہوتا ہے جو پارٹی ایک سیٹ کم سے کم جیت کر آئی ہو۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی سیاسی جماعت کے جیتے ہوئے امیدوار ہوں تو سیاسی پارٹی آٹومیٹکلی پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آزاد امیدوار پارٹی بنا لے تو آرٹیکل 51 نافذ نہیں ہوگا، آزاد امیدوار کی اسمبلی سے باہر تو پارٹی تصور کی جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آزاد امیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس نوٹیفکیشن کی حیثیت کیا ہے؟ ڈپٹی رجسٹرار کے خط کو سپریم کورٹ کا موقف کیسے مانا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سرکاری طور پر ہونے والے کمیونیکیشن کو نظرانداز کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹیفکیشن کس قانون کے تحت جاری کئے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 63 اے سے ان نوٹیفکیشنز کا تعلق نہیں۔ اٹارنی جنرل منصوراعوان نے علامہ اقبال کے بانگ درا کے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں، میرا شوق دیکھ اور میرا انتظار دیکھ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کی تشریح مان لیں تو پارلیمان میں بیٹھے اتنے لوگوں کا کوئی پارلیمانی لیڈر نہیں ہوگا؟ موقف مان لیا تو کسی کیخلاف آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف ہونے پر کارروائی ممکن نہیں ہوگی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک طرف ہمیں بتایا جاتا ہے الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اب الیکشن کمیشن کا ہی ریکارڈ ان لوگوں کو سنی اتحاد کونسل کا مان رہا ہے، بتائیں نا الیکشن کمیشن انہیں پارلیمانی پارٹی مان کر کیسے نشستوں سے محروم کر رہا ہے، الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کو بتا رہا ہے کہ ہمارے ریکارڈ میں یہ پارلیمانی جماعت ہے، ریکارڈ کسی وجہ سے ہی رکھا جاتا ہے ناں؟ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ہو سکتا کہ سیاسی جماعت اگر پارلیمانی پارٹی نہ ہو لیکن سیٹ جیتے تو پارلیمانی پارٹی تصور کی جا سکتی؟اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتخابات ہی تعین کریں گے کہ پارلیمانی پارٹی کون ہوگی، آزاد امیدوار اگر ہوں تو پارلیمانی پارٹی میں شامل ہو سکتے۔ جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ میں آزاد امیدوار کے بارے میں نہیں پوچھ رہی، میں انتخابات میں حصہ لینے کے حق کے حوالے سے پوچھ رہی، آپ کے مطابق سیاسی جماعت ہی پارلیمانی پارٹی بنے گی، ابھی تو ہم دیکھ رہے آزاد امیدوار سیاسی جماعت ہیں یا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اگر سنی اتحاد ضمنی انتخابات میں جیتتی ہے تو پارلیمانی پارٹی بن سکتی ہے جس پر جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت تصور نہیں کرتا تو پارلیمانی پارٹی کیسے بن سکتی؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 51 کے تحت سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں لیکن ضمنی الیکشن جیتنے کے بعد پارلیمانی پارٹی بن چکی؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر سنی اتحاد ضمنی انتخابات میں جیتتی ہے تو پارلیمانی پارٹی بن سکتی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اگر آزاد امیدوار کسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں تو پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہیں ملیں، سنی اتحاد کونسل کو آزاد امیدوار تصور کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں کو علم تھا کہ آزاد قرار دیئے گئے امیدوار پی ٹی آئی کے ہیں، مکمل انصاف کا اختیار اور کہاں استعمال کرنا ہے جب عدالت پوری تصویر ہی نہ دیکھ سکے، کیا عدالت آنکھیں بند کر لے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیرآئینی تشریح کی عدالت توثیق کر دے؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی پٹواری کی زمین کا تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کا نہیں آئین اور قانون کا اطلاق کرتی ہے؟ نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ہی ذکر ہے، جب کچھ ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی اپنی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے، کسی جج سے بدنیتی منسوب نہیں کر رہا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت آئین کی سنگین خلاف ورزی کی توثیق کر دے؟ کیا کمرے میں موجود ہاتھی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ ایک آئینی ادارے نے غیر آئینی تشریح کی اور سپریم کورٹ توثیق کرے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں، ہر فیصلے نے آئین کو فالو کیا، کچھ ججز دانا ہوں گے، میں اتنا دانا نہیں، پاکستان کو ایک بار آئین کے راستے پر چلنے دیں۔ جسٹس عرفان نے کہا کہ جو آزاد امیدوار کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ قانون تو کہتا ہے کہ 3 روز میں سیاسی جماعت میں شامل ہو، آزاد امیدوار کیسے رہیں گے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آزاد امیدوار اگر شامل کسی جماعت میں نہیں ہوتے تو آزاد ہی رہیں گے۔ اسی کے ساتھ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ میں 15 منٹ میں جواب الجواب ختم کر دوں گا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی مزید سماعت 9 جولائی تک ملتوی کر دی۔