بیجنگ (نمائندہ خصوصی) حال ہی میں، چین اور فلپائن رین آئی ریف کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے ایک عارضی انتظام پر متفق ہوئے اور بحیرہ جنوبی چین میں جاری تنازعے میں عارضی طور پر سکون حاصل کیا گیا ۔ تاہم،امریکہ کی جانب سے اس معاملے کو ہوا دینے سے بحیرہ جنوبی چین میں امن و امان کے بارے میں اب بھی فلپائن کے قول و فعل کو غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ مستقبل میں کیا کرے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ جنوبی بحیرہ چین میں “استحکام”نہیں دیکھنا چاہتا۔ جولائی کے آخر میں، فلپائن اور امریکہ نے وزرائے خارجہ اور دفاع کے درمیان “2+2” مذاکرات کا ایک نیا دور منعقد کیا اور ایک مشترکہ بیان جاری کیا۔ بیان میں، امریکہ نے دعوی کیا کہ امریکہ اور فلپائن کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ جنوبی بحیرہ چین کے علاقے پر بھی لاگو ہوتا ہے، اور جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مزید دفاعی اور سیکیورٹی تعاون کی اپیل کی۔ مذاکرات کے بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اعلان کیا کہ امریکہ فلپائن کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے لیے 500 ملین ڈالر کی فنڈنگ فراہم کرے گا۔ بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر امریکی مدد اور رویے نے فلپائن کی اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دیا ہے۔
ایک ایشیائی ملک کے طور پر، فلپائن کو سمندری تنازعات سے نمٹنے کے دوران علاقائی امن اور استحکام کو ترجیح دینی چاہیے۔ تاہم، جب سے مارکوس انتظامیہ نے اقتدار سنبھالا ہے،لگتا ہے کہ امریکہ-فلپائن اتحاد کی پیروی اس پر انحصار اور اس کی مضبوطی فلپائن کی قومی پالیسی بن گئی ہے۔ اس پس منظر میں، بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر فلپائن کے عمل میں قومی مفادات اور قومی حکمت عملیوں کے بارے میں عقلی سوچ کا فقدان ہے، اور یہ بیرونی قوتوں پر انحصار کرتی ہیں ۔
فلپائن کے کچھ سیاست دانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ امریکہ کی طرف سے پیش کردہ حفاظتی وعدے “خیالی پلاؤ” سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، امریکہ-فلپائن اتحاد کا حتمی مقصد امریکہ کی عالمی بالادستی کے مقصد میں اس کی خدمت کرنا ہے۔ فلپائن بڑی طاقتوں کے مقابلے میں حملہ کرنے والوں میں سب سے آگے آنے والا ملک بن گیا ہے جب کہ اصولی طور پر فلپائن کو خطے پر زیادہ اہمیت دینی چاہیئے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں کیوں کہ یہ عمل درست انتخاب بھی ہے اور فلپائن کے قومی مفادات اور عوام کی بھلائی کے مطابق بھی ۔