عطاتارڑ

مخصوص نشستوں کا عدالتی فیصلہ آئین کے آرٹیکلز سے باہر جاکر لکھا گیا’عطا اللہ تارڑ

لاہور( نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہمخصوص نشستوں کے کیس میں اختلاف کرنے والے دو معزز ججز صاحبان کے تفصیلی فیصلے نے اکثریت کے فیصلے پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے ،واضح ہو گیا ہے کہ اکثریتی فیصلے میں بہت سے سقم اور ابہام موجود ہیں ، دو معزز ججز نے جو تحفظات اور نکات اٹھائے ہیں ان کا جواب آنا بہت ضروری ہے ،یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ پندرہ روز بعد تفصیلی فیصلہ جاری ہو جاتا ہے لیکن باقی ججز صاحبان کی طرف سے ابھی تک تفصیلی فیصلہ کیوں جاری نہیں کیا گیا،اختلاف کرنے والے ججز کے تفصیلی فیصلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین کی متعلقہ شقوں سے باہر جا کر فیصلہ لکھا گیا ہے اور فیصلے پر عملدرآمد کے لئے آرٹیکل51،63اور 106معطل کرنا پڑے گا ۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ لکھنے والے سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان کی طرف سے جاری اپنے تفصیلی فیصلے میں یہ بات درج ہے کہ اس کیس میں نہ پی ٹی آئی فریق تھی ،نہ اس نے کوئی درخواست دی نہ عدالت کے سامنے موجود تھی اورنہ ہی ان کو سنا گیا تو پھر کس طریقے سے ان 81ممبران کو ریلیف دیدیا گیا جنہوںنے عدالت کے سامنے کوئی حلف نامہ ہی جمع نہیں کرایا تھا یا جو عدالت کے سامنے درخواست گزار کی حیثیت سے موجود ہی نہیں تھے ۔

جنہوںنے عدالت سے کوئی حق مانگا نہیں تھا اور وہ لوگ مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر رکنیت کا حلف اٹھا چکے ان کی رکنیت ختم کر دی مگر اس سے پہلے جو مراحل ہیں وہ قانونی طور پر اپنی جگہ پر موجود ہیں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین اور اقلیتی ممبران کو نشستوں سے فارغ کر دیں اور ان کے حلف لینے سے پہلے کے جو مراحل ہیں ان کو قانونی طو رپر حل نہ کیا جائے یہ انتہائی اچنبھے کی بات ہے ۔انہوں نے کہا کہ دو معزز ججز اپنے فیصلے میں کہہ رہے ہیں آرٹیکل 175اور185میں جو دائرہ اختیار تفویض کیا گیا ہے اس سے باہر جا کر اکثریت نے فیصلہ دیا ہے ،انہوں نے آرٹیکل51،63اور 106کی بات کی ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد کے لئے آئین کے مذکورہ آرٹیکلز کو معطل کرنا پڑے گا ۔

سنی اتحاد کونسل کے جوممبر زہیں وہ کہہ ہی نہیں رہے کہ انہوں نے پارٹی تبدیل کرنی ہے لیکن جب وہ ایوان میں سنی اتحاد کونسل کی نشستوں سے اٹھ کر تحریک انصاف کی نشستوں پربیٹھیں گے تو کیا فلور کراسنگ نہیں ہو گی ، کیا یہ آرٹیکل62ون ایف اور آرٹیکل 63کی خلاف ورزی نہیں ہو گی ،آپ ایک پارٹی کا حلف نامہ دے چکے ہیں کیا مستقبل کے اندر بھی اس کو جواز بنایا جائے گا جو بھی ممبر فلور کراسنگ کرنا چاہے اور پارٹی تبدیل کرنا چاہے تو وہ اس فیصلے کا سہارا لے کر پارٹی تبدیل کر سکے گا۔

وفاقی وزیر عطا اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ اختلاف کرنے والے دو معزز ججز صاحبان نے جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا حتی کہ ان کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا ،اس پر بھی آئین واضح ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو پارلیمان موجود ہیں ان کو متناسب نمائندگی کے فارمولے کے مخصوص نشستیں دی جائیں گی ،کیا سنی اتحاد کونسل کا پارلیمان میں وجود تھا ؟ ۔

یہ غلطی پی ٹی آئی کے سابق ممبران کی تھی کہ وہ انہوںنے جماعت میں جانا مناسب سمجھا جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں تھا ، مجلس وحدت المسلمین کا پارلیمان میں وجود تھا اور ایسی جماعت جس کا پارلیمان میں وجود ہی نہیں اسے مخصوص نشستیں نہیں مل سکتی تھیں ، سنی اتحاد کونسل کے اپنے آئین میں لکھا ہے اقلیت کا کوئی شخص ان کی پارٹی کو جوائن نہیں کر سکتا اور اس لحاظ سے انہیں اقلیت کی نشستیں بھی نہیں مل سکتیں۔

عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ دو معزز ججز صاحبان کے تفصیلی فیصلے نے اس کیس میں اکثریت کے فیصلے پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ ان کے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے آئین کی شقیں معطل کرنا پڑیں گی ، آئین کی دو شقوں میں جو دائرہ اختیار تفویض کیا گیا ہے اس سے باہر جاکر فیصلہ کرنا پڑے گا جس سے نہ صرف کلارک ریورس کیا گیا ہے بلکہ وہ ریلیف دیا گیا ہے جو مانگا نہیں گیا ان کو ریلیف دیا گیا جو مانگنے نہیں آئے تھے ۔

دو معزز ججز صاحبان کے فیصلے سے واضح ہے کہ الیکشن 2017کی خلاف ورزی کے بعد یہ ریلیف دیا جا سکتا اور ان کو ریلیف دیا گیا جو عدالت کے سامنے نہیں جنہوں نے کوئی درخواست نہیں دی اور کوئی استدعا نہیںکی اور کسی نے اس اقدام کو چیلنج نہیں کیا تھا ہم سنی اتحاد کونسل میں گئے ہیں اور ہم سنی اتحاد کونسل میں نہیں جا سکتے اور انہیں پی ٹی آئی کا ممبر تصور کیا جاتا ۔انہوں نے کاہ کہ جو ممبر مخصوص نشستوں پر منتخب ہو گئے تھے ان کو بھی نہیں سنا گیا اور نہ ان کو بلایا گیا جو ان کی حق تلفی ہے ۔اس کا ایک پراسس ہے ،الیکشن کمیشن ان کی فہرستیں گئی ہیں ان کو شارٹ لسٹ کیا گیا اور سکروٹنی ہوئی ہے اور جانچ پڑتال کے بعد ایک نوٹیفکیشن ہوا اور انہوںنے ممبر کے طور پر حلف اٹھایا ۔

انہوں نے اختلاف کرنے والے دو معز زججز صاحبان اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ پندرہ روز گزرنے کے باوجود اکثریت نے فیصلہ جاری نہیں کیا جو یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے نظر ثانی کی درخواست دائر کی ہے اس کو بھی سماعت کے لئے مقر ر کیاجانا تھا لیکن ابھی تک اسے سماعت کے لئے مقرر نہیں کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کسی بھی آئین کے فریم ورک کے اندر چھٹیاں نہیں ہوتیں۔دو معزز ججز صاحبان کے فیصلے میں جو آئینی اور قانونی نکاتی اٹھائے گئے ہیں ان کی وضاحت نہایت ضروری ہے کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز کو معطل کر کے فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہو گا یہ لیگل فریم ورک پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔

یہ سوال اپنی جگہ بر قرار ہے کہ جس جماعت کا الیکشن میں وجود ہی نہیں، جس کا پارلیمان میں وجود نہیں ، تحریک انصاف سرے سے موجود نہیںتھی کیا اسی درخواست کے تحت بن مانگے بن آئے کسی کو ریلیف دیا جانا چاہیے تھا اس کا جواب آنا بھی باقی ہے ۔ دو معزز ججز کی جانب سے بڑے سنجیدہ قانونی نکاتی اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب ملنا بھی ضروری ہے ،تفصیلی فیصلہ آنا بھی ضروری ہے ورنہ جس طریقے سے یکطرفہ ریلیف کا جو تاثر ملا ہے اس سے پورے ملک میں آئین و قانون کو دھچکا لگے گا، یہ قانون کی حکمرانی پر بڑا سوالیہ نشان ہوگا ،اس سے فلور کراسنگ کو قانونی شکل مل جائے گی ،62اور63 معطل ہو جائے گا۔

انہوںنے کہا کہ ماضی میں بھی 63اے کی تشریح کی گئی کہ ووٹ ڈالا جائے گا لیکن وہ شمار نہیں ہوگا اوررکنیت بھی ختم ہو گی ،اس فیصلے میں یہ کہا جارہاہے پارٹی تبدیل کر لیں اوراس پارٹی میں چلے جائیں جس کا وجود نہیں تھا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں