مولانا فضل الرحمن

بدقسمتی سے ہمارے ہاتھ مروڑ کر ایکسٹینشن کرائی گئی تھی، مولانا فضل الرحمن

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاتھ مروڑ کر ایکسٹینشن کرائی گئی تھی،پارلیمنٹ کا واقعہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں پوری پارلیمنٹ کے ساتھ ہوا ہے، اس واقعے پر احتجاجاً پارلیمنٹ کو تین دن کیلئے بند کیا جانا چاہیے تھا،پارلیمنٹ اگر اپنی حدود کا احترام کرے تو فوج اور عدلیہ کو بھی کرنا ہو گا،حکومت اصلاحات کے حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمن کا نکتہ اعتراض پر اظہار خیال ہوئے کہنا تھا کہ پارلیمنٹ میں ایم این ایز سے ہونے والے واقعہ کی مذمت کرتا ہوں، پارلیمنٹ کا واقعہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں پوری پارلیمنٹ کے ساتھ ہوا ہے، اس واقعے پر احتجاجاً پارلیمنٹ کو تین دن کیلئے بند کیا جانا چاہیے تھا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا کی سیکورٹی صورتحال پر ہمیشہ آواز اٹھائی ہے، ملک کی وحدت اور یکجہتی عزیز ہے ، یہ ملک ہمارا گھر ہے اور ہم اس ملک کی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سیکورٹی صورتحال مخدوش ہے، میں پوچھتا ہوں حکومت کی رٹ کہاں پر ہے؟ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں حکومت کی رٹ نہیں ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ وہ کسی ادارے میں ایکسٹینشن کی حمایت نہیں کریں گے، اپوزیشن میں ہیں اور رہیں گے، پارلیمنٹ ملک کا سپریم ترین ادارہ ہے، اگر ایکسٹینشن بنتی ہے تو پھر سب سے زیادہ پارلیمنٹ کی بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاتھ مروڑ کر ایک ایکسٹینشن کرائی گئی تھی،کیا ایسا ممکن نہیں آئینی امور کیلئے الگ عدالت بنا دی جائے، تبدیلی لانی ہے تو صحیح معنوں میں لائی جائے، پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہو گا،پارلیمنٹ عدلیہ اور فوج سے سپریم ہے۔انہوںنے کہاکہ عدلیہ پر بات کرو تو توہین عدالت لگ جاتی ہے، کسی ادارے پر تنقید نہیں کریں گے تاہم کوئی اراکین پارلیمان کی تذلیل نہ کرے، تعیناتی کیلئے صرف سنیارٹی نہیں اہلیت بھی دیکھی جانی چاہیے، جوڈیشل کونسل اور پارلیمانی پارٹی چیف جسٹس کا انتخاب کرے۔مولانا فضل الرحمن نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اگر اپنی حدود کا احترام کرے تو فوج اور عدلیہ کو بھی کرنا ہو گا،حکومت اصلاحات کے حوالے سے اپوزیشن کو اعتماد میں لے۔پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر اسپیکر قومی اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 8 ستمبر کو سنگجانی میں ہمارے اتحاد کا جلسہ ہوا تھا،اس سے پہلے بانی پی ٹی آئی نے جلسہ منسوخ کیا، پولیس والوں نے بتایا کہ ماحول خراب کرنے والے ہمارے لوگ نہیں ہیں، ہم وقت پر جلسہ ختم کرنے کیلئے تیار تھے۔انہوں نے بتایا کہ اگر رکاوٹیں نہ ڈالتے تو جلسہ وقت پر ختم ہوجاتا، اگلے دن ہمارے اوپر پرچے شروع ہوگئے، ملک امتیاز کا نام بھی پرچے میں شامل تھا لیکن وہ ایک سال پہلے ن لیگ میں شامل ہوچکے تھے اور 6 مہینے قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے۔قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ تین چار دنوں میں کچھ اچھی باتیں بھی ذہن میں سما گئی ہیں، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے نفرت کے ماحول میں کھانے کا اہتمام کیا اور ہمیں سنا، پارلیمنٹ کے ساتھ جو ہوا شاید یہ نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ رانا ثناء اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، خواجہ آصف اور عطا تارڑ سے پی ٹی آئی میں نفرت کی جاتی ہے، قسم اٹھاتا ہوں اگر ان کو کچھ کہا جائیگا تو وہ ہاتھ روکوں گا، اس دن میں نے بات کی لیکن موقع نہ ملا، میں نے ساتھیوں کو کہا کہ ہمارے پاس گارڈز ہیں میدان کار زار بنا لیتے ہیں۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ عامر ڈوگر نے کہا کہ یہ ہماری گرفتاری کیلئے نہیں آئے ،بہر حال مجھے گرفتار کیا اور لے گئے، میرے پاس کلاشنکوف تھے اور پستول تھی ابھی تک کچھ بھی واپس نہیں کیا گیا۔شیر افضل مروت نے کہا کہ یہ جج جب سے آیا ہے یہی کام کررہا ہے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کے ریمانڈ اس جج نے نہیں دیے، رات کو اہلکار آئے اور مجھے ساڑھے نو بجے گاڑی میں بٹھایا اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے لے، مزید کہا کہ وہاں نقاب پوش بیٹھے ہوئے تھے اور اس نقاب پوش کو میں نے پہنچان لیا، اس نقاب پوش نے پستول نکالا اور کہا کہ اگر کوئی بھاگ جاتا ہے تو اسے مار دیا جاتا ہے۔اجلاس کے دوران اسد قیصر نے پوری پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹیز نے 9 اور 10 تاریخ کی درمیانی رات کے ہونے والے واقعے پر یکجہتی کا اظہار کیا، پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے مقدس اور قابل احترام ادارہ ہے، یہ پارلیمنٹ جیسی بھی ہمیں اس کا احترام ہے، آئینی ترمیم کیلئے ہمارے اراکین کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سعد اللہ بلوچ کو بازیاب کرانے کیلئے ان کی فیملی کو اغوا کیا گیا، زور زبردستی سے لانے والے اس قانون کی کیا حیثیت ہوگی، کیا چیف جسٹس اس قسم کے قانون کے بعد اپنے ایکسٹینشن کیلئے تیار ہوں گے؟ آج اگر وہ فائدہ لینے سے انکار کرے تو کہیں گے کہ بڑا قدم اٹھایا۔

اس سے قبل وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری ماسک پہن کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے جس پر اپوزیشن ارکان نے انہیں کورونا ہونے کے خدشے کا اظہار کیا۔وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر نشست سے کھڑے ہوئے تو انہوں نے ماسک لگا رکھا تھا، اویس لغاری نے کہا کہ مجھے کووڈ کی علامات ہیں لیکن اس کے باوجود میں ایوان کے احترام میں موجود ہوں اور اراکین کے تمام سوالات کے جوابات دینے کیلئے تیار ہوں۔اس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ کیا آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں؟وزیر توانائی نے بتایا کہ انہیں علامات ہیں لیکن ٹیسٹ پازیٹیو نہیں ہے، ممبر قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ ایسا نہ کریں آپ ٹیسٹ کرائیں۔اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے وزارت توانائی کے سوالات ملتوی کرادیے اور اویس لغاری ایوان سے روانہ ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں