اسلام آباد (گلف آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے اے پی ایس کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ انٹیلی جنس کہاں غائب ہوجاتی ہے؟،ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اس پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، نتائج صفر ہیں ۔ بدھ کو ذاتی حیثیت میں طلبی پر وزیر اعظم عمران خان آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) حملہ کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ،وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اطلاعات فواد چوہدری سمیت چند وفاقی وزرا بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے ۔
وزیر اعظم کی آمد سے قبل سپریم کورٹ کے اطراف سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے جبکہ وزیر اعظم کی آمد سے قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد بھی سپریم کورٹ پہنچے تھے۔گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی تھی کہ وہ عدالت کو حکومت کی جانب سے 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پر حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کی شکایات کے ازالے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کریں۔
بدھ کوکو دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا انہیں اس سے آگاہ کروں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے، وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کریں گے، ایسے نہیں چلے گا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں، اعلی حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی،دفتر چھوڑ دوں گا مگر کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس میں وزیراعظم کو ساڑھے 11 بجے طلب کیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق دور ان سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سابق آرمی چیف اور دیگر ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا؟، جب ان کے اپنے شہریوں کے تحفظ کی بات آتی ہے تو انٹیلی جنس (ایجنسیاں) کہاں غائب ہو جاتی ہیں؟۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انکوائری رپورٹ میں سابق آرمی چیف اور انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سابق ڈائریکٹر جنرل سے متعلق کچھ نہیں ملا۔اس پر چیف جسٹس احمد نے ریمارکس دیے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، اس پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہم دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی ہیں، انٹیلی جنس پر اتنا خرچ کیا جا رہا ہے، لیکن نتائج صفر ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اداروں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ قبائلی علاقوں میں آپریشن کا ردعمل ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ سب سے آسان اور حساس ترین ہدف بچے تھے۔دوران سماعت عدالت میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا اور جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ‘اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کررہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں؟چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بچوں کو اسکولوں میں مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتے، یہاں چوکیدار اور سپاہیوں کے خلاف کارروائی کر دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی مگر اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لے کر چلتے بنے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے مشاہدہ کیا کہ یہ ممکن نہیں کہ دہشت گردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو، اے پی ایس واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی’۔