چھوٹی

چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے افغانستان سے جْڑے بڑے مفادات

دوحہ (گلف آن لائن)جب بھی افغانستان اور طالبان کی بات آتی ہے تو قطر کا نام ایک ناگزیر ثالث کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ قطر نے اپنی اس حیثیت کو اس حد تک منوا لیا کہ اب جرمن صدر اشائن مائر نے آئندہ ہفتے دوحہ کے اپنے پہلے دورے کا ارادہ کر لیا۔قطر ناقابل یقین حد تک امیر ریاست ہے۔ یہ خلیجی ملک قدرتی گیس کے ذخائر کے ایک بڑے خزانے پر براجمان ہے۔ اگر اس ریاست کے ارد گرد گوناگوں بحران اور تنازعات نہ ہوتے اور اسے سعودی عرب جیسے خطرناک رقیب پڑوسی کا سامنا نہ ہوتا تو اس ملک میں قریب تین لاکھ شہری بے فکری سے زندگی بسر کر سکتے تھے۔ابھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ اس خلیجی اماراتی ریاست کو مسلم انتہا پسندوں کی حمایت کرنے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت جیسی بدنامی کا سامنا تھا۔

اس بیچ اس خلیجی ریاست نے اپنا ایک بالکل مختلف رْخ اور نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی۔ قطر افغانستان اور طالبان کے لیے ایک اچھا ثالث بننا چاہتا تھا جو مغرب کے لیے ناگزیر اور عرب دنیا کے لیے ناقابل نظر انداز ہو۔قطر اپنی تبدیل شدہ شکل پیش کرنے میں کامیاب نظر آ رہا ہے۔ خاص طور سے افغانستان کے لیے ۔ صحرائی اماراتی ریاست ہندو کْش میں اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے گرچہ انکار کرتا ہے لیکن اس کی افغانستان کے معاملات میں دلچسپی بنیادی طور پر خطے کی سلامتی ، خوشحالی اور ترقی میں مضمر ہے۔ یہ کہنا ہے جرمنی متعینہ قطری سفیر عبداللہ محمد الثانی کا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو ایک تحریری بیان پیش کیا۔ جس میں انہوں نے لکھا، یہ دنیا بھر میں سلامتی اور امن و استحکام کی خدمت کے مترادف ہے۔

دنیا کے نقشے پر بمشکل نظر آنے والا اماراتی ملک قطر تاہم عالمی سیاسی نقشے پر بہت نمایاں نظر آنے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔ اس وقت قطر افغان طالبان کے دروازے تک کی رسائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ کابل میں بنیاد پرست طالبان حکام تک پہنچنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو چھوٹی سی ریاست قطر سے ہی گزرنا ہو گا۔ قطر دنیا میں سب سے زیادہ ‘مائع قدرتی گیس’ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔

یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔قطر نے طالبان کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا سنگ بنیاد 2013 ء میں ہی رکھ دیا تھا۔ چکا چوند سے بھرپور شہر دوحہ میں دنیا بھر میں کالعدم قرار دیے گئے طالبان نے اپنی نمائندگی کے لیے دفتر قائم کر لیا، امریکا کی استدعا پر۔قطر نے ابھی تک کابل میں نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن خلیجی امارات اپنے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دے رہا ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت جاری رکھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں