رانا شمیم

عدلیہ کے خلاف الزامات سے متعلق بیانِ حلفی پر رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کی فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی 20 دسمبر تک مؤخر کی استدعا منظور

اسلام آباد (گلف آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ کے خلاف الزامات سے متعلق بیانِ حلفی پر گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کی فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی 20 دسمبر تک مؤخر کرنے کی استدعا منظورکرلی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق کیس میں نے ریمارکس دیئے کہ زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہوسکتی،پریولیج ڈاکومنٹ لیک ہونے پر نوٹری پبلک کیخلاف انکوائری ہوسکتی ہے،لوگوں کو اعتماد نہ ہو تو ہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس نہیں کرسکتے،ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے جو بیان حلفی کی خبر میں دیا گیا ہے،کورٹ کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدر آمد کا معاملہ چل رہا ہے۔

پیر کو ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی سے متعلق کیس کی سماعت کی، سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی، دی نیوز کے رپورٹر انصار عباسی اور ریما عمربطور عدالتی معاون ہائیکورٹ میں پیش ہوئیں جبکہ رانا شمیم کچھ تاخیر سے عدالت پہنچے۔سابق چیف جج رانا شمیم کی آمد سے قبل جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ رانا شمیم خود کہاں ہیں؟ اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم کواصل بیان حلفی جمع کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا تھا، پتہ نہیں وہ آج اصل بیان حلفی جمع کرارہے ہیں یانہیں؟چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ ایک درخواست آئی ہے،وہ آپ نے دیکھی ہے؟اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ 9 دسمبر کو نواسے نے اصل بیان حلفی بھجوایا ہے، کوریئر کے ذریعے اس بیان حلفی بھجوایا گیا ہے، ڈاکومنٹ بھجوانے میں 3 دن لگنے چاہئیں۔

سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے عدالت کو بتایا کہ انصارعباسی بہترین صحافی ہیں، حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرتے ہیں، بیان حلفی دینے والا اس کی تصدیق کررہا ہے تو وہ شائع ہونا چاہیے۔چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس میں کہا کہ اگر وہ ڈاکومنٹ خفیہ ہو تو کیا پھر بھی وہ بیان حلفی شائع ہونا چاہیے؟جو ہیڈ لائن شائع ہوئی اس پر غور کریں، زیر التوا اپیلوں پر اس طرح رپورٹنگ نہیں ہوسکتی،پریولیج ڈاکومنٹ لیک ہونے پر نوٹری پبلک کے خلاف انکوائری ہوسکتی ہے۔عدالت نے کہاکہ لوگوں کو اعتماد نہ ہو تو ہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے کیس نہیں کرسکتے،ایسا تاثر نہیں دینا چاہیے جو بیان حلفی کی خبر میں دیا گیا ہے،کورٹ کے سامنے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدر آمد کا معاملہ چل رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ راناشمیم اپن یجواب میں کہتے ہیں بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہوگا،یہ اس اسلام آبادہائیکورٹ کی بات ہے جہاں بہت سے حساس کیس زیر سماعت ہیں، اس عدالت پرلوگوں کا اعتماد ختم کرنے کا سوال ہو تو عدالت برداشت نہیں کریگی۔سیکرٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے کہاکہ تاریخ بہت تلخ ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں پر کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا، آپ انٹرنیشنل اصول بتائیے گا۔چیف جسٹس نے کہاکہ بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دے کر بتائیں خبر ٹھیک شائع کی گئی؟ادارے میں ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر اسی لیے ہوتا ہے کہ اسے چیزوں کو دیکھنا ہوتا ہے،آج کے دور میں سچ جھوٹ بن رہا ہے اور جھوٹ سچ بن رہا ہے،یہ مجھے نہ بتائیے گا کہ کیا کیا ہوتا رہا ہے؟جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہاکہ آپ سے پہلے سارے مسنگ پرسنز کے کیسز تھے،اگر کورٹ کے بارے میں بداعتمادی پھیلا دی تو کیا ہوگا؟میں اور میری کورٹ کے جج احتساب کے لیے تیار ہیں۔اس موقع پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں شوکاز پر رانا شمیم کا تحریری جواب پڑھ کر سنایا جس میں رانا شمیم نے کہاکہ عدلیہ کی توہین مقصودہوتی تو بیان حلفی پاکستان میں ریکارڈ کراکے میڈیا کو دیتا، جواب میں رانا شمیم نے بتایا کہ اصل بیان حلفی کوریئر کردیا گیا ہے۔

چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے سماعت میں کہاکہ ہمارا نصب العین ہے کہ سائلین ہی اسٹیک ہولڈ رہیں، میں اور آپ اہم نہیں،یہاں کے عوام اور سائلین زیادہ اہم ہیں۔جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہاکہ میں بار بار کہہ رہا ہوں کسی کی ذات کا معاملہ نہیں ہے، یہ اس کورٹ کی ساکھ اور اس پر عوام کے اعتماد کا سوال ہے،یہاں پر تو سیاسی بیانیے کے لیے چیزیں تباہ ہوجاتی ہیں، مجھے فیملی ممبرز، دوست بتاتے ہیں میرے خلاف کتنا پروپیگنڈا ہوتا ہے مگر میں نے اس سے متعلق کبھی کسی کو توہین عدالت کا نوٹس نہیں کیا۔چیف جسٹس نے بتایا کہ کیمبرج میں میرا مضمون سول لبرٹی تھا،کوئی تنقید کرے تو اسے ویلکم کرتے ہیں،اس کیس کے حقائق الگ اور یہاں سوال مختلف ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے صحافی انصار عباسی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو بہت پہلے سے جانتا ہوں، آپ کی ساکھ ہے، انصارعباسی نے جواب میں کہاکہ اس کورٹ کے لیے کافی احترام ہے۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہاکہ وکیل اور کورٹ رپورٹرز سے کوئی چیز نہیں چھپتی، یہاں موجود کورٹ رپورٹرز بہت پروفیشنل اور دیانتدار ہیں،انصار عباسی سے کہاکہ کورٹ آپ سے بیان حلفی حاصل کرنے کا سورس نہیں پوچھے گی، انصارعباسی نے بتایا کہ رانا شمیم کے بیان حلفی میں جو کچھ کہا گیا وہ انہیں کوٹ کرکے کہا،اسٹوری میں بھی لکھا ہے کہ یہ رانا شمیم کا دعویٰ ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم اور انصارعباسی کے موقف میں فرق ہے، ہم چاہتے ہیں اس معاملے پر سوالات کریں لہذا رانا شمیم کو بیان حلفی اور انصار عباسی ودیگر کو جوابی بیان حلفی جمع کرانے کا کہا جائے۔

چیف جسٹس نے رانا شمیم توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران 10 منٹ کا وقفہ کردیا، وقفے کے بعد سابق چیف جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔اٹارنی جنرل نے اس موقع پر کہاکہ توہین عدالت کے نوٹس ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں، اس دوران رانا شمیم کا اصل بیان حلفی بھی آجائے گا،اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے۔اس موقف کے بعد عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کردی۔سماعت کے دوران عدالتی معاون ریما عمر بھی عدالت میں پیش ہوئیں ، چیف جسٹس اطہرمن اللّٰہ نے کہا کہ عدالت چاہتی ہے آپ اس کیس میں معاونت کریں،سائلین اس کورٹ کے اسٹیک ہولڈر ہیں،ریما عمر نے جواب میں کہاکہ جی سائلین مرکزی اسٹیک ہولڈر ہیں۔
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں