سعید غنی

خواہش ہے سندھ میں بھی جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات ہوجائیں،اس بار کراچی کامئیر انشاء اللہ پیپلز پارٹی کا ہی ہوگا، سعیدغنی

کراچی(گلف آن لائن) وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ صوبہ سندھ میں بھی جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات ہوجائیں۔ اس بار کراچی شہر میں مئیر انشاء اللہ پیپلز پارٹی کا ہی آئے گا۔پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو کراچی میں اپنی شکست کا خوف واضح نظر آگیا ہے اور اسی لئے وہ بلدیاتی قانون کو بنیاد بنا کر اس پر واویلا مچا رہے ہیں اور اصل میں وہ انتخابات سے بھاگنا چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا کے پی کے میں اثر و رسوخ تو تھا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اچانک آگئے ہیں۔ کے پی کے کے عوام نے بہت بری طرح پی ٹی آئی کو مسترد کیا ہے اور اس سے ان کو عبرت حاصل کرنا چاہیے۔

سندھ میں صوبائی حکومت میلینیم ایس ڈی جیز(پائیدار ترقی کے اہداف) کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہم الیکشن ہار بھی جائیں تو بھی عوام کی خدمت جاری رہے گی۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے ہمیں عوام کی خدمت کرنا سکھایا ہے, ان خیالات کا اظہار انہوںنے بدھ کی صبح ڈائو یونیورسٹی آف سائنس ہیلتھ میں منعقدہ انٹرنیشنل کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں صوبائی حکومت میلینیم ایس ڈی جیز(پائیدار ترقی کے اہداف) کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے ، کینسر سے لے کر دل کے امراض تک یہاں علاج کیا جارہاہے,سعید غنی نے کہا کہ کئی ملک میلنیم ڈویلپمنٹ گول کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ محکمہ محنت سندھ کے تحت سندھ حکومت بینظیرمزدور کارڈ کا اجراء کردیا ہے ، جس میں صحت وتعلیم کی سہولتوں سمیت سماجی تحفظ بھی موجود ہوگا۔

انہوںنے کہا کہ ہر مزدور یہ کارڈ لے سکتا ہے جس کے ذریعے سے مزدور سہولیات حاصل کرسکتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ خدانخواستہ ہم الیکشن ہار بھی جائیں تو بھی ہمارا عوام کی خدمت کا سفر جاری رہے گا، ہمارے چیئرمین بلاول بھٹو نے ہمیں عوام کی خدمت کرنا سکھایا ہے ۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سعید غنی نے صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی جماعت کا کے پی کے میں اثر و رسوخ تو تھا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اچانک آگئے ہیں۔

انہوںنے اچھا پرفورم کیا ہے، میں ان کو مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوںنے کہا کہ البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ نون لیگ نے ان کو وہاں کہاں کہاں سپورٹ کیا تھا لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں وہاں نون لیگ کہی نظر نہیں آرہی ہے سوائے ایک آدھ جگہ کے۔ انہوںنے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کے پی کے کے الیکشن میں بہت اچھا پرفورم کیا ہے، ساتھ ہی اے این پی، جماعت اسلامی نے بھی بہتر پرفورم کیا ہے اور اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جے یوپی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے ووٹوں کا تناسب کیا جائے تو وہ پی ٹی آئی سے 5 سے 6 گنا زیادہ ووٹ لئے ہیں، جو اس بات کا واضح کرتا ہے کہ کے پی کے کے عوام نے بہت بری طرح پی ٹی آئی کو مسترد کیا ہے اور اس سے ان کو عبرت حاصل کرنا چاہیے۔۔

انہوںنے کہا کہ ابھی جو آئی ایم ایف کے ساتھ وفاقی حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے اور جس کے نتیجہ میں مہنگائی ہوئی ہے اور مزید ایک منی بجٹ آنا ہے، پیٹرول کی قیمت میں لیوی کی مد میں ہر ماہ 4 روپے لیٹر کا اضافہ کیا جارہا ہے، بجلی کی قیمتوں میں مستقل اضافہ کیا جارہا ہے اور صرف دسمبر کے ماہ میں عوام کے جیبوں پر 68 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔اگر یہ ساری صورتحال چلتی رہی تو کے پی کے جہاں پی ٹی آئی سمجھتی تھی کہ ہم یہاں آسانی سے سب کچھ جیت جائیں گے، وہاں ان کا جلوس اور جنازہ نکل گیا ہے اور وہاں دفن ہوگئے ہیں تو پنجاب میں ، سندھ میں اور بلوچستان میں ان کا کیا حشر ہوگا اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ صوبہ سندھ میں ہماری خواہش ہے کہ جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات ہوجائیں۔

انہوںنے کہا کہ میرے پاس جو معلومات ہیں اس کے مطابق الیکشن کمیشن آئندہ ماہ حلقہ بندیوں کا کام شروع کریں گے اور جتنا وقت حلقہ بندیوں میں لگے گا اس کے بعد انتخابات کرانے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں ہوگی اور ہم جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کرانا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ اس بار کراچی شہر میں مئیر انشاء اللہ پیپلز پارٹی کا ہی آئے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ جتنے ضمنی انتخابات اور کنٹونمنٹ کے انتخابات کراچی میں ہوئے ہیں، اس میں پیپلز پارٹی نے بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔ ابھی کل ہی کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ جو پاکستان کا سب سے بڑا کنٹونمنٹ بورڈ ہے اور جو پی ٹی آئی کا گڑھ مانا جاتا ہے، پی ٹی آئی وہاں سے جیتتی آئی ہے، صدر پاکستان عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسماعیل وہاں سے کامیاب ہوئے ہیں۔ وہاں سے پیپلز پارٹی کا امیدوار 8 ووٹ جبکہ پی ٹی آئی کا امیدوار صرف 2 ووٹ لیتا ہے۔ اس سے اندازہ لگا لیجئے کہ لوگوں کا موڈ کتنا بدل گیا ہے۔

اسی طرح این اے 249 کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے، جہاں پی ٹی آئی 2018 میں پہلے نمبر پر تھی اور 2021 کے ضمنی الیکشن میں وہ 5 ویں نمبر پر آگئی جبکہ پیپلز پارٹی چھٹے سے پہلے نمبر پر آگئی ہے۔ انہوںنے کہا کہ کراچی میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ اس کا ووٹ بینک بھی بڑھ رہا ہے اور انشاء اللہ اس بار مئیر کراچی بھی ہمارا ہی ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو اپنی شکست کا خوف واضح نظر آگیا ہے اور اسی لئے وہ بلدیاتی قانون کو بنیاد بنا کر اس پر واویلا مچا رہے ہیں اور اصل میں وہ انتخابات سے بھاگنا چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے عدالتوں میں جاکر یا کسی اور طریقے سے یہ چاہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات جلد نہ ہوں اور اس میں تاخیر ہوتاکہ یہ ایکسپوز نہ ہوں اور لوگوں کو یہ معلوم نہ چلے کہ اب ان کی گرائونڈ پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ سندھ حکومت نے صحت کے شعبہ میں بہت کام کیا ہے اور اس میں کچھ مسائل اور اشیوز ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اس حوالے سے کہی پر لوگوں کے مطالبات جائز ہیں تو کہی پر جائز نہیں ہیں اور ان کو بھی اس پر دیکھنا چاہیئے کہ وہ ہم یہ حل کرسکتے ہیں یا نہیں۔۔

انہوںنے کہا کہ بنیادی طور پر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ یم زیادہ پیسہ عوام کے علاج معالجہ پر خرچ کریں اور جو پیسہ اس فیلڈ میں کام کرتے ہیں اور ان کو جائز ان کا ھق ملنا چاہیئے۔ انہوںنے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ صحت کے شعبہ سے وابستہ افراد نوکری تو اپنی جگہ کرتے ہیں لیکن وہ نیکی کا کام بھی کرتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ان لوگوں کو اور ڈاکٹروں کو کم از کم ہڑتال میںنہیں جانا چاہیے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے، جس سے ان کے مطالبات بھی سامنے آسکیں ، انکا نکتہ نظر بھی واضح ہو اور مریضوں کو بھی تکلیف نہ ہو۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ ہم کوشش کررہے ہیں، این آئی سی وی ڈی اچھا چل رہا ہے، اس میں بہت سے چیزیں بہتر ہوئی ہیں، لیکن پچھلے کچھ برسوں سے وفاقی حکومت نے پہلے اس پر تنازعہ کھڑا کیا کہ یہ اسپتال ہم لے لیں گے، پھر عدالتوں کے فیصلے آئے، پھر عدالت نے کہا کہ آپ اسپتال لے لیجئے اور 100 ارب روپے سندھ حکومت کو ادا کردیں، اس پر وہ پیچھے ہٹ گئے، پھر نیب کو بیچ میں ڈال دیا، بعد میں ایف آئی اے کو ڈال دیا، اگر صحت کے شعبہ میں کام کرنے والے ادارے جو لوگوں کو علاج کی اچھی سہولیات فراہم کررہے ہیں، تو اس کو سیاسی بنیادوں پر متنازعہ بنائیں گے ، وہاں لوگوں کو تنگ کریں گے تو جو ڈاکٹرز ہوتے ہیں ان کے پاس بہت مواقع ہوتے ہیں وہ کہی اور جا کر نوکری کرلیں گے۔ لیکن جو عام لوگ جو ان اسپتالوں میں علاج کرانے آتے ہیں ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہوتا اور وہ در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ، ہماری عدالتوں کو کم از کم اسپتال یا دیگر ایسے اداروں کے حوالے سے کسی اور نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ باقی جو اشیوز ہیں اس میں ڈاکٹر سعید قریشی سے کہوں گا ، حکومت کی سطح پر جہاں محکمہ صحت کی مدد کی ضرورت پڑے گی، ہم بالکل ان اشیوز کو حل کریں گے۔ انہوںنے کہا کہ ہم تو اس شعبہ سے وابستہ افراد کو بہت زیادہ سہولیات کی فراہمی چاہتے ہیں، انہوںنے کہا کہ ہم تعلیم اور صحت کے شعبہ میں کام کرنے والے لوگوں کو خصوصاً تمام وسائل کی فراہمی چاہتے ہیں ، لیکن وسائل جو حکومت کے پاس ہوتے ہیں وہ محدود ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں